سہرا   شادی کی تقریب کا ایک روایتی عنصر

                                               سہرا  خوانی شادی کی ایک قدیم اور روایتی رسم ہے جو برصغیر پاک و ہند میں خاص طور پر مشہور ہے۔ یہ ایک ایسا کلام ہے جو دولہے کے لیے پڑھا جاتا ہے اور اس میں اس کی خوشی اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا جاتا ہے۔ نیزاسلامی تعلیمات اور اخلاقی قدروں کو بھی پیش کیا جاتا ہے۔ا گر اردو شعر و ادب میں سہرا نگاری کی روایت کا جائزہ لیا جائے تو مرزا غالب اور استاد  ذوق  کے مابین ایک حریفانہ کشاکش کے سیاق میں سہرے کی ادبی معنویت خاصی دلچسپ ہے۔ یہ دونوں اساتذہ سخن  سہرانویسی کے لیے جس دلچسپی سے متحرک نظر آتے ہیں وہ ہی ادبی حریفانہ چشمک اس نظم کی صنف کے مقبول ہونے کا ایک اہم محرک بھی مانی جاتی ہے۔

سہرا شادی کی تقریب کا خوبصورت اور دلکش حصہ ، خوشی، محبت اور نیک تمناؤں کی علامت ہے۔ یہ روایت ثقافتی اور مذہبی اقدار کی عکاسی کرتی ہے اور شادی کی تقریب کو یادگار بناتی ہے۔ چاہے سہرا روایتی ہو یا اسلامی، اس کا مقصد ہمیشہ دلوں میں محبت اور خوشی کا چراغ روشن کرنا ہوتا ہے۔ اس کی ابتدا عموماً حمد باری تعالیٰ سے پھر نعتیہ اور کے بعد کچھ منقبتی اشعار ہوتے ہیں۔ پھردولہے کی خوبیاں اور صفات کی تعریف کی جاتی ہے، دولہے کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا جاتا ہے۔

                                                                  چوں کہ اس وقت رسم سہرا خوانی بام ثریا سے شانہ بشانہ  ہے اس لیے چند احباب نے خواہش ظاہر کی کہ  مشاہیر شعرا کے کام سہرا کو یک جاکتابی شکل میں جمع کردیا جائے تاکہ ہم سہرا خوانوں کو خصوصاً اور دیگر افراد کو عموماً یک ہی ایک سے زیادہ سہرے مل سکیں۔اس فرمائش کے تحت اس کتاب میں ابھی تقریباً ۵۵ سہرے جمع کردئے گئے ہیں لیکن اکثر نام والے ہیں جن  میں حسب موقع دولہا کے رشتہ داروں کے نام بدلتے رہیں۔۔۔۔

 

محمدآفاق رضا

 

 

 

 

 

خالق کو نین کا لطف و عطا سہرے میں ہے

 

کلام: محمد طفیل احمد مصباحی بانکا

 

خالق کو نین کا لطف و عطا سہرے میں ہے

اتباع سنت خیر الوری سہرے میں ہے

النکاح سنتی فرمان ہے سرکار کا

الفت مولیٰ علی و فاطمہ سہرے میں ہے

پھول ارماں کا کھلا ہے زندگی کے باغ میں

بوئے گل اور نکہت عشق و وفا سہرے میں ہے

بالیقیں ماں باپ کی ہے یہ دعاؤں کا اثر

اس لیے اے دوستو احمد رضا سہرے میں ہے

دیکھیے گلزار حافظ آج چشم شوق سے

آپ کا لخت جگر اور لاڈلا سہرے میں ہے

کیوں نہ ہوں پیر و جواں قربان اس کو دیکھ کر

حسن یوسف کا چمکتا آئینہ سہرے میں ہے

اپنی قسمت پر ہیں نازاں آج دولہا اور دلہن

مرحبا ، صد مرحبا ! رنگ حناسہرے میں ہے

ما ما عبد اللہ ، ضیاء الحق یہ بولے جھوم کر

دیکھ لو بارا تیوا بھانجا مر ا سہرے میں ہے

آج بے حد خوش ہیں سلمان و نرالے ، سفیان

ان کا بھائی جان جو دولہا بنا سہرے میں ہے

پیش کرتے ہیں مبارک باد صدام و حسن

مرحبا ، صد مرحبا ! احمد رضا سہرے میں ہے

 

راجا و شمشاد، جیمی کہہ رہے ہیں بزم میں

دولها بابو آج بیحد جچ رہا سہرے میں ہے

قلب عرفان و حسن میں ہے مسرت کی بہار

آرزوؤں اور خوشیوں کی ادا سہرے میں ہے

والد ماجد جناب اصغر علی کی ہے دعا

اس لیے دامادان کا چاند سا سہرے میں ہے

سر فراز و شهنواز و شبر و سرور غلام

اور جمشید و صنوبر کی دعا سہرے میں ہے

دادا ادریس ، اختر و رزاق ، جاوید و کمال

نانا ، ماما کی طفیلؔ احمد دعا سہرے میں ہے

 

یوں مہکتا رہے تیرے سہرے کا پھول

 

کلام:محمد علاء الدین امن رضوی

 

ہے یہ فضل خدا، بھائی تحسیں رضا

آج دولہا بنا ، بھائی تحسیں رضا

بی بی رفعت پہ زہرا کا سایہ رہے

صدقہ ، مرتضیٰ ، بھائی تحسیں رضا

فیض غوث الوریٰ سے مہکتا رہے

خوب سہرا ترا ، بھائی تحسیںرضا

تیری تقریب شادی میں چاروں طرف

چھا یا فیض رضا، بھائی تحسیں رضا

 

حضرت فخر ملت کا فیضان ہے

جو یہ سہرا سجا، بھائی تحسیں رضا

فخر ملت کی آمد سے روئے نصیب

جگمگانے لگا، بھائی تحسیں رضا

فیض قاضیٔ ملت کا ہے یہ اثر

ہے معطر فضا، بھائی تحسیں رضا

تیرے سر پر رہے فیض عثمان کا

سایہ افگن سدا ، بھائی تحسیں رضا

کر رہے ہیں مشائخ نہیں جتنے یہاں

تیرے حق میں دعا ، بھائی تحسیں رضا

پرُ مُسرّت ہیں مولانا نعمان بھی

دیکھ کر رخ ترا، بھائی تحسیں رضا

فضل ربانی، رحمانی کے لب پہ ہے

نغمہ جانفزا، بھائی تحسیں رضا

فضلِ یزدانی بولے یہ بھیا ترے

آج نوشہ بنا، بھائی تحسیں رضا

دے رہے ہیں یہ مولانا منظور بھی

خوب دل سے دعا ، بھائی تحسیں رضا

پیش کرتے ہیں یہ مفتی اظہار بھی

تمغہء مرحبا بھائی تحسیں رضا

جھوم کر کہہ رہے ہیں یہ توقیر بھی

رہیے شاداں سدا، بھائی تحسیں رضا

یوں مہکتا رہے تیرے سہرے کا پھول

ہے یہ قلبی دعا ، بھائی تحسیں رضا

 

والدہ ، بھائی ، بہنیں بھی شاد ہیں

خوش ہیں سب اقربا ، بھائی تحسیں رضا

لب پہ احباب کے ہے یہ پیہم رواں

مرحبا مرحبا ، بھائی تحسیں رضا

ہو گیے دور غم جب یہ شاداب کی

پہنی تم نے ردا ، بھائی تحسیں رضا

امنؔ رضوی بھی ہے شاد تیرے لیے

اس نے سہرا کہا، بھائی تحسیں رضا

 

فضل پروردگار ہے سہرا

 

کلام :محمد طفیل احمد مصباحی

 

فضل پروردگار ہے سہرا

نکہت لالہ زار ہے سہرا

گل بدن ، گل عذار ہے سہرا

مشک زا، مشک بار ہے سہرا

غم زدہ ، غم گسار ہے سہرا

درد دل کا قرار ہے سہرا

نور و نکہت کا ہے سماں ہر سو

مثل فصلِ بہار ہے سہرا

باپ کے خواب کی حسیں تعبیر

ماں کے دل کی پکار ہے سہرا

دو دلوں کا یہ جوڑنے والا

ایک روحانی تا رہے سہرا

عبدِ قیوم کی دعاؤں کا

اک حسیں شاہکار ہے سہرا

کہہ رہے ہیں یہ مولوی خالد

کس قدر شان دار ہے سہرا

مفتی راشد ، علی امام ، ارشاد

بول اٹھے : جان دار ہے سہرا

احتشام ، آفتاب اور ریحاں

کے دلوں کا قرار ہے سہرا

بھائی سمنانی اور جیلانی

کے لیے با وقار ہے سہرا

مفتی سرور غلام نے یہ کہا

رحمت کردگار ہے سہرا

ساجد ، احسان اور وصی اختر

کی نگاہوں کا پیار ہے سہرا

نوشا بابو غلام عثمانی

تیرے سر کا وقار ہے سہرا

بی بی مهناز فاطمه تیری

آرزوؤں کا ہار ہے سہرا

ہر جہت سے طفیلؔ مصباحی

لائق افتخار ہے سہرا

 

مری بیٹی تری شادی کی ڈولی اٹھنے والی ہے

 

کلام :شفیع اعظمی ابراهیم پورا اعظم گڑھ

مری بیٹی تری شادی کی ڈولی اٹھنے والی ہے

تو اپنے محترم خاوند کے گھر جانے والی ہے

چمن جیسا یہ گھر تیرا جہاں بچپن تر اگزرا

یہاں سے چھوڑ کر سب کو تو رخصت ہونے والی ہے

ہمیشہ کے لیے اب آج سے ہو گا وہ گھر تیرا

تو اپنے گھر سے جس گھر کو روانہ ہونے والی ہے

تری سسرال کی چوکھٹ ہے تیری منتظر بیٹی

ترے قدموں کا وہ چاہت سے بوسہ لینے والی ہے

مری بیٹی خدائے پاک تجھ کو حوصلہ بخشے

تو ذمے داریوں کے راستے پر چلنے والی ہے

بڑی مشکل سے اپنے دل پہ رکھ کر صبر کا پتھر

 بہن تیری تجھے رو رو کے رخصت کرنے والی ہے

تری امی ترے ابو ترے بھائی کی آنکھوں میں

 جو اک حسرت ہے وہ تجھ سے بہت کچھ کہنے والی ہے

خدائے پاک کے فضل و کرم سے اسے مری بیٹی

حریم دل میں تیرے شمعِ الفت جلنے والی ہے

ترے دادا چچا ماموں سبھی کے پیار کی خوشبو

ترے دل اور تیری روح کو مہکانے والی ہے

تری دادی چچی خالہ تری بھابھی کی آنکھوں میں

خوشی کی جو چمک ہے وہ تجھے چمکانے والی ہے

تری سکھیوں کے ہونٹوں پر دعا جو ہے ترے حق میں

 ہر اک مشکل سے وہ تیری حفاظت کرنے والی ہے

نہ دل چھوٹا کبھی کرنا ترے جتنے بھی اپنے ہیں

مری بیٹی دعا سب کی ترے کام آنے والی ہے

 

تری چاہت ترے ارمان کے گلشن کی شاخوں پر

مسرت کی حسیں بلبل ترانہ گانے والی ہے

کریں گے جس میں مرغان محبت زمزمہ خوانی

ترے دل کے گلستاں میں وہ محفل سجنے والی ہے

اجالے پھیلنے والے ہیں تیرے دل کی دنیا میں

مسرت کی ضیا سے ظلمت غم چھٹنے والی ہے

تری شادی میں یہ بجتی ہوئی نغموں کی شہنائی

ترادا من مسرت کے گھر سے بھرنے والی ہے

ترے خواب تمنا کے مہ کامل کی ضوریزی

حقیقت میں ترے دل کے محل پر پڑنے والی ہے

خدائے پاک کی ہوتی ہے رحمت ایسی عورت پر

 جو دل سے اپنے شوہر کی اطاعت کرنے والی ہے

کوئی مشکل کبھی مغلوب تجھ کو کر نہیں سکتی

درود پاک تو پیارے نبی پر پڑھنے والی ہے

یہ پیارا رخصتی نامہ جو ہے ، اس کی حسیں خوشبو

تری منزل کا تجھ کو راستہ دکھلانے والی ہے

مرے افکار کے بادل بھی رخصت ہونے والے ہیں

مرے اشعار کی برسات بھی اب تھمنے والی ہے

شفیع خوش نوا تحریر یہ تیری محبت سے

شبستان محبت میں سجا کر رکھنے والی ہے

 

دعا ہے یہ سرکار نعمت کا سہرا

 

کلام :غلام رسول احمد ضیا سیتا مڑھی

دعا ہے یہ سرکار نعمت کا سہرا

ہو خوشیوں کا انبار نعمت کا سہرا

مبارک ہو زوجین کو زندگی بھر

بنا ہے جو دستار نعمت کا سہرا

معطر منور فضا کہہ رہی ہے

ہے پھولوں کی مہکار نعمت کا سہرا

چمکتا ، دمکتا ، رہے میرے مولی

ہمیشہ لچکدار نعمت کا سہرا

یہ منصور بولے مبارک حسن سے

ہے الفت کا مینار نعمت کا سہرا

دعا رنگ لے آئی انوار تیری

یہ کرتا ہے اظہار نعمت کا سہرا

ریاض الحسن کہہ رہے ہیں سبھی سے

بہت ہی ہے دمدار نعمت کا سہرا

کرایا ہے احمدؔ تبارک میاں نے

محبت سے تیار نعمت کا سہرا

 

آج نوشاہ کے چہرے پہ خوشی چھائی ہے

 

کلام :شفیع اعظمی ابراہیم پورا عظم گڑھ

 

آج نوشاہ کے چہرے پہ خوشی چھائی ہے

جشن شادی کی زہے بخت گھڑی آئی ہے

جشن شادی کے چراغوں کی ضیا پاشی سے

فکر نوشاہ نے پر کیف جلا پائی ہے

ماں کی ممتا کا یہ صدقہ ہے مبارک سہرا

ایک ناقابل انکار یہ سچائی ہے

بھائی بہنوں کی مناجات کا فیضان ہے یہ

روئے نوشہ پہ جو فرحت کی گھٹا چھائی ہے

آج ماں باپ کے گلہائے دعا کی خوشبو

اپنے فرزند کے سہرے میں چلی آتی ہے

سن کے نغمات طرب کہتے ہیں مطرب سے سبھی

قابل رشک تری زمزمہ پیرائی ہے

دو دلوں کا ہے چھپا شوق محبت اس میں

آج گونجی ہوئی شادی کی جو شہنائی ہے

حسن نوشاہ کا پھولوں سے تعلق ہے عجیب

ایسا لگتا ہے کہ برسوں کی شناسائی ہے

اپنے چہرے سے ہٹائیں ذرا پھولوں کا نقاب

کب سے ہر آنکھ زیارت کی تمنائی ہے

کتنی پر کیف یہ بارات ہے ماشاء اللہ

دیکھیے جس کو بصد شوق تماشائی ہے

مشکبو محفل شادی کا یہ لمحہ لمحہ

مرحبا قاطع تار شب تنہائی ہے

سادے انداز میں ہم نے یہ لکھا ہے سہرا

لفظ بھی عام ہیں لہجہ بھی علاقائی ہے

مری ہر بات میں سوبات ملے گی صاحب

گرچہ انداز بیاں قدرے ڈرامائی ہے

یہ بھی حکمت پہ ہے محمول جو سمجھے کوئی

ہم نے اک بات کی بار جو دہرائی ہے

 

یہ ضیا بار سماں دیکھ کے شادی کا شفیع

ایک ٹھنڈک سی کیجے میں اُتر آئی ہے

 

خالق کون و مکاں کی ہے یہ نعمت سہرا

 

کلام :محمد طفیل احمد مصباحی بانکا

 

رب تبارک و تعالیٰ کی ہے رحمت سہرا

خالق کون و مکاں کی ہے یہ نعمت سہرا

مصطفی جان دو عالم کی ہے سنت سہرا

چشم و دل کے لیے ہے وجہ طہارت سہرا

مرحبا ! دیکھیے ہے باعث زینت سہرا

حبذا ! باعث تسکین طبیعت سهرا

اوج پر کیوں نہ ہو قسمت تری نوشاہ بابو

شاہ سبطین کی ہے تجھ پہ عنایت سہرا

جس کے ماتھے پہ بھی سجتا ہے بھلا لگتا ہے

زندگی کی ہے یہ پر کیف حقیقت سہرا

جشن شادی ہو مبارک تمھیں دولھا دلھن

نصف ایمان کی دیتا ہے ضمانت سہرا

باغ فردوس کی حوریں بھی ہیں قرباں اس پر

رخ نوشہ پہ ہے سرمایہ عزت سہرا

ماہ و انجم بھی اسے کرتے ہیں جھک جھک کے سلام

رشک خورشید ہے یا پھر مہ طلعت سهرا

 

ہے یہ ماں باپ کی پر سوز دعاوں کا اثر

بیٹے نے پہنا ہے جو تاج محبت سہرا

باغ ہستی میں کھلا د یکھیے ارماں کا گلاب

مشک و عنبر کی طرح تجھ میں ہے نکہت سہرا

خوش برادر ہیں سبھی بہنیں ہیں شاداں بے حد

آج سب کے لیے ہے باعث فرحت سہرا

پیش کرتے ہیں رفیقان گرامی تبریک

چشم احباب میں ہےکحل مسرت سہرا

کہہ رہے ہیں یہی ۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔

تیرے گھر لائے گا بے شک بڑی برکت سهرا

چشم ۔ ۔ ۔ میں روشن ہے سراپا تیرا

اور سب تیرے سراپا کی ہے طلعت سہرا

۔۔۔ اور ۔ ۔ ۔ آئے دعائیں لے کر

سب دعاوں سے ہے بے شک یہ عبارت سہرا

آج ۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔و چچا ۔ ۔ ۔ بھی

دیکھتے ہیں ترا صدر شک نزاکت سہرا

شادماں شادماں ہیں ۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔

لایا ہے ان کے لیے اک نئی فرحت سہرا

۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔ ہیں شاد

ان کے تفسیدہ جگر کی ہے طراوت سہرا

۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔

بول اٹھے ہے ترے ارمان کی جنت سہرا

۔ ۔ ۔ کے لب پر بھی ہے نغمہ جاری

شوق سے کرتی ہیں وہ تیری زیارت سہرا

 

کیجیے بھائی ۔ ۔ ۔ آپ یہ سوغات قبول

پیش احمدؔ نے کیا نذرِ عقیدت سہرا

 

فضل مولی سے حسیں آئی ہے ساعت دیکھیے

 

کلام :محمد طفیل احمد مصباحی بانکا

 

فضل مولی سے حسیں آئی ہے ساعت دیکھیے

مصطفی کی ہو گئی تم پر عنایت دیکھیے

النكاح سنتی فرمان ہے سر کار کا

ہو رہی ہے دھوم سے تعمیل سنت دیکھیے

رنگ لے آئی دعا ماں باپ کی کچھ اس طرح

اوج پر بابو ۔ ۔ ۔ ۔ کی آج قسمت دیکھیے

گلستان آرزو میں آگئی ایسی بہار

پیار کے اس پھول میں کیسی ہے نکہت دیکھیے

طاقِ دل میں ہو گیا روشن محبت کا چراغ

جھلملا نے اب لگی دل کی عمارت دیکھیے

آج بھی سایہ فگن ہے والدِ ماجد کا ہاتھ

حضرت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ادر یس کی زندہ کرامت دیکھیے

کس قدر پر کیف ہے منظر سماں ہے عید کا

ہر طرف چھائی ہوئی ہے یاں مسرت دیکھیے

نور کی برسات سے روشن در و دیوار ہیں

خالقِِ ارض و سما کی خاص رحمت دیکھیے

 

لے کے خوشیوں کی ادا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں مگن

بھائی ۔۔۔۔ کے بھی چہرے پر بشاشت دیکھیے

ہیں برادر ۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔ شاداں بزم میں

 اک بڑے کی ہوتی ہے چھوٹے پر شفقت دیکھیے

آج بہنیں گا رہی ہیں گیت خوشیوں کے یہاں

پیار میں بھائی کے لب پر ہے مسرت دیکھیے

۔ ۔ ۔ و۔ ۔ ۔ بھائی یہ لپک کر بول اٹھے

بڑھ گئی ہے آج تیری شان و شوکت دیکھیے

شاد ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھی اور ۔ ۔ ۔

سب کے دل میں ہے بسی نوشہ کی چاہت دیکھیے

کیف و مستی میں ہے ۔۔۔ اور ۔ ۔ ۔ یہاں

مثل غنچہ مسکرائی ان کی چاہت دیکھیے

تاج سلطانی بھی شرما جائے اس کو دیکھ کر

بزم امکاں میں ہے سہرے کی یہ عظمت دیکھیے

قوم مسلم غور سے سن ! ہے بخاری کی حدیث

بهر شادی لڑکیوں میں نیک سیرت دیکھیے

پھول سہرے کا ہے اتنا پر کشش کہ آگئے

قدسیانِ چرخ بھی بہر زیارت دیکھیے

غنچہ الفت سے آنگن ہے مہکتا چار سو

آئی ہے ۔ ۔ ۔ بن کے مثل جنت دیکھیے

ہو مبارک تم کو شادی اے مرے پیار ۔ ۔ ۔

بس یہی تحفہ لیے احمدؔ کی شرکت دیکھیے

 

کیسا باغ و بہار ہے سہرا

 

سہرا سر کار تاج الشریعہ

کیسا باغ و بہار ہے سہرا

کس قدر خوشگوار ہے سہرا

نورِ جانِ بہار ہے سہرا

غیرتِ لالہ زار ہے سہرا

کس کے رخ پر نثار ہے سہرا

کس کیلئے تار تار ہے سہرا

کیا گہر ہے بجائے گل اس میں

کس قدر آب دار ہے سہرا

رحمت دو جہاں کے جلوے ہیں

گلشن نو بہار ہے سہرا

رضویوں کی بہار ہے سہرا

سنیوں کا قرار ہے سہرا

نجدیوں کو کہاں ہے تابِ نظر

آتش شعلہ بار ہے سہرا

سینۂ یار کے لئے ٹھنڈک

دلِ اعدا میں خار بے سہرا

چشمِ بد دور کیوں نہ ہو تجھ سے

تیرے رخ کا حصار ہے سہرا

گلشن فیض مفتی اعظم

رشک صد لالہ زار ہے سہرا

از طفیل شفیع بهر سعید

زندگی کی بہار ہے سہرا

پھول سہرے کے کہہ رہے ہیں سنو!

ماں کے دل کی پکار ہے سہرا

 

ہیں رفیق و حسن بھی نعرہ زن

واہ کیا خوشگوار ہے سہرا

رخ رضیہ پہ تازگی ہے نئی

تازگی کا نکھار ہے سہرا

فاطمہ صابرہ کے صدقے میں

باقی و پائیدار ہے سہرا

شاہدہ پر بھی کیف طاری ہے

کس خوشی کا خمار ہے سہرا

ہے زلیخا بھی پیکر حیرت

کیا انوکھا نکھار ہے سہرا

اور عطیہ بھی مسکراتی ہے

مسکراتی بہار ہے سہرا

سعدیہ اور زبیدہ گاتی ہیں

واہ کیا شاہکار ہے سہرا

هو امان و حمیدہ کو مژدہ

رحمت کردگار ہے سہرا

کھینچ لائی شمیم ہر دل کو

کس قدر خوشگوار ہے سہرا

عقد فرمانِ سرور دیں ہے

اذن پروردگار ہے سہرا

رنگ طوبیٰ ہے پردۂ گل میں

کیا بہشتی بہار ہے سہرا

بندش خوشگوار بلبل و گل

دو دلوں کا قرار ہے سہرا

 

نور میں سب نہا گئی محفل

نور کا آبشار ہے سہرا

سب لگاتے ہیں نعرہ تحسین

واہ کیا خوشگوار ہے سہرا

چاند سے چہرہ سعید ، اخترؔ

اور ستاروں کا ہار ہے سہرا

 

یہ بزرگوں کا عطاء کر دہ ہے پیارا سہرا

 

کلام: گوہر

 

یہ بزرگوں کا عطاء کردہ ہے پیارا سہرا

اس لئے اور ہوا افضل واعلی سهرا

مرحبا صلی علی خوب سنوارا سهرا

رخ نوشاہ پہ لگتا ہے دل آرا سہرا

کتنا دلکش ہے حسین اور شگفتہ سہرا

سب عزیزوں کو کئے دیتا ہے شیدا سہرا

ہو گیا نور سے معمور رخ نور نظر

جس گھڑی ماں نے کلیجے سے لگا یا سہرا

محترم والد قبلہ نے دعائیں دی ہیں

اس لئے ہو گیا تسکین سراپا سہرا

سارے احباب مسرت سے مچل اٹھے ہیں

کتنی خوشیاں مرے گھر لے کے ہے آیا سہرا

 

سبکو دیوانہ کئے دیتا ہے محفل میں سلیم

کیسا جاذب و منور ہے تمھارا سہرا

پھوٹی پڑتی ہے محبت کی کرن لڑیوں سے

سر پہ یہ نوشاہ کے کیا خوب بندھا یا سہرا

التفات عالم و اقلیم شرافت و رئیس

دیکھ کر شاد ہیں رانی و شمیمہ سہرا

شاد شهناز میں شاہین اور پروبین و ندیم

دیکھ کر مست ہیں شہرین و رقیہ سہرا

شمس توفیق ہوں کہ حضرت سبحان و شہاب

سب نے ملکر کے محبت سے ہے گا یا سہرا

عائرہ ار حم و عبد الله عیان و صفوان

ہر کسی کو ہے لگا خوب دل آرا سہرا

خوش نظر آتے ہیں رحمان اور ارحان و فہد

جب ہوا جلوہ نما باندھ کے نوشہ سہرا

نانا شبیر کی بھی روح کو آئیگا قرار

آئیگا باندھ کے جب ان کا نواسہ سہرا

احمد حمدان و حمید اور عبید و کونین

ہو گیا سب کے لئے جان تمنا سہرا

فیصل و زید کے ہمراہ سبھی گانے لگیں

ساره حورین و ردا اور شبینہ سهرا

بدعت و شرک جو سہرے کو کہا کرتے ہیں

آج آنکھوں میں فقط ان کی گرٹیگا سہرا

اہلسنت کا نگہبان ہو جس کا دادا

اس کے پوتے کے نہ کیوں سر پہ بند ھیگا سہرا

 

اور منظر کوئی ذیشان کو بھاتا ہی نہیں

دیکھ کر اپنی نگاہوں سے اخی کا سہرا

جھومے جاتے ہیں مسرت سے قدیر و سلمان

کسقد ر پوچھئے مت ان کو ہے بھایا سہرا

شادمان آج ہوے ارشد راشد معروف

چھا بابا کی نگاہوں کو بھی بھایا سہرا

فیصل عمران ہوں ذیشان کہ آصف ثاقب

سب نے ملکر کے محبت سے ہے گا یا سہرا

خالہ پھوپھی و بوا چچی ممانی بہنیں

سب کی نظروں میں محبت سے سمایا سہرا

نانا ماما نے دعاوں سے نوازا ہے اسے

اب تو یہ اوج ثریا پہ رہیگا سهرا

غیر محرم سے کرے پردہ دلہن نوشہ کی

بخش دے مولی اسے شرم و حیا کا سہرا

جشن شادی میں جو نوشہ ہوا رونق افروز

رشک کرنے لگا ہر دیکھنے والا سہرا

دھوم شادی میں بھی سنت کے مطابق ہو سلیم

تاکہ رب کو بھی لگے خوب تمھارا سہرا

جس سے راضی ہو خدا اور شہ دیں خوش ہوں

مہر پہ للہ تم ایسا ہی سجانا سہرا

محفل عقد میں اسے ناچنے گانے والے

مشورہ میرا ہے نیکی کا خدارا سہرا

باندھے شوق سے نوشاہ کے سر پر یارو

ہاں یہ جائز ہے شریعت میں گلوں کا سہرا

 

سارے انسان جسے سن کے نصیحت پائیں

 سازیہ آئی میں پڑھتے ہوئے ایسا سہرا

ناچ گانے سے بہت دور رہا کرتے ہیں

جن کی نظروں میں ہے محبوب خدا کا سہرا

نیک تلقین تمھیں کرتے ہیں چچا بابا

تا کہ فیضان کا ہو جائے تمھارا سہرا

غیر حاضر ہوں مگر دل تو ہے حاضر گوہرؔ

میرا پیغام محبت ہے سراپا سہرا

خالق کو نین کا لطف و عطا سہرے میں ہے

 

کلام: محمد طفیل احمد مصباحی بانکا

 

خالق کو نین کا لطف و عطا سہرے میں ہے

اتباع سنت خیر الوری سہرے میں ہے

النکاح سنتی فرمان ہے سرکار کا

الفت مولیٰ علی و فاطمہ سہرے میں ہے

پھول ارماں کا کھلا ہے زندگی کے باغ میں

بوئے گل اور نکہت عشق و وفا سہرے میں ہے

بالیقیں ماں باپ کی ہے یہ دعاؤں کا اثر

اس لیے اے دوستو احمد رضا سہرے میں ہے

دیکھیے گلزار حافظ آج چشم شوق سے

آپ کا لخت جگر اور لاڈلا سہرے میں ہے

کیوں نہ ہوں پیر و جواں قربان اس کو دیکھ کر

حسن یوسف کا چمکتا آئینہ سہرے میں ہے

اپنی قسمت پر ہیں نازاں آج دولہا اور دلہن

مرحبا ، صد مرحبا ! رنگ حناسہرے میں ہے

ما ما عبد اللہ ، ضیاء الحق یہ بولے جھوم کر

دیکھ لو بارا تیوا بھانجا مر ا سہرے میں ہے

آج بے حد خوش ہیں سلمان و نرالے ، سفیان

ان کا بھائی جان جو دولہا بنا سہرے میں ہے

پیش کرتے ہیں مبارک باد صدام و حسن

مرحبا ، صد مرحبا ! احمد رضا سہرے میں ہے

 

راجا و شمشاد، جیمی کہہ رہے ہیں بزم میں

دولها بابو آج بیحد جچ رہا سہرے میں ہے

قلب عرفان و حسن میں ہے مسرت کی بہار

آرزوؤں اور خوشیوں کی ادا سہرے میں ہے

والد ماجد جناب اصغر علی کی ہے دعا

اس لیے دامادان کا چاند سا سہرے میں ہے

سر فراز و شهنواز و شبر و سرور غلام

اور جمشید و صنوبر کی دعا سہرے میں ہے

دادا ادریس ، اختر و رزاق ، جاوید و کمال

نانا ، ماما کی طفیلؔ احمد دعا سہرے میں ہے

 

یوں مہکتا رہے تیرے سہرے کا پھول

 

کلام:محمد علاء الدین امن رضوی

 

ہے یہ فضل خدا، بھائی تحسیں رضا

آج دولہا بنا ، بھائی تحسیں رضا

بی بی رفعت پہ زہرا کا سایہ رہے

صدقہ ، مرتضیٰ ، بھائی تحسیں رضا

فیض غوث الوریٰ سے مہکتا رہے

خوب سہرا ترا ، بھائی تحسیںرضا

تیری تقریب شادی میں چاروں طرف

چھا یا فیض رضا، بھائی تحسیں رضا

 

حضرت فخر ملت کا فیضان ہے

جو یہ سہرا سجا، بھائی تحسیں رضا

فخر ملت کی آمد سے روئے نصیب

جگمگانے لگا، بھائی تحسیں رضا

فیض قاضیٔ ملت کا ہے یہ اثر

ہے معطر فضا، بھائی تحسیں رضا

تیرے سر پر رہے فیض عثمان کا

سایہ افگن سدا ، بھائی تحسیں رضا

کر رہے ہیں مشائخ نہیں جتنے یہاں

تیرے حق میں دعا ، بھائی تحسیں رضا

پرُ مُسرّت ہیں مولانا نعمان بھی

دیکھ کر رخ ترا، بھائی تحسیں رضا

فضل ربانی، رحمانی کے لب پہ ہے

نغمہ جانفزا، بھائی تحسیں رضا

فضلِ یزدانی بولے یہ بھیا ترے

آج نوشہ بنا، بھائی تحسیں رضا

دے رہے ہیں یہ مولانا منظور بھی

خوب دل سے دعا ، بھائی تحسیں رضا

پیش کرتے ہیں یہ مفتی اظہار بھی

تمغہء مرحبا بھائی تحسیں رضا

جھوم کر کہہ رہے ہیں یہ توقیر بھی

رہیے شاداں سدا، بھائی تحسیں رضا

یوں مہکتا رہے تیرے سہرے کا پھول

ہے یہ قلبی دعا ، بھائی تحسیں رضا

 

والدہ ، بھائی ، بہنیں بھی شاد ہیں

خوش ہیں سب اقربا ، بھائی تحسیں رضا

لب پہ احباب کے ہے یہ پیہم رواں

مرحبا مرحبا ، بھائی تحسیں رضا

ہو گیے دور غم جب یہ شاداب کی

پہنی تم نے ردا ، بھائی تحسیں رضا

امنؔ رضوی بھی ہے شاد تیرے لیے

اس نے سہرا کہا، بھائی تحسیں رضا

 

فضل پروردگار ہے سہرا

 

کلام :محمد طفیل احمد مصباحی

 

فضل پروردگار ہے سہرا

نکہت لالہ زار ہے سہرا

گل بدن ، گل عذار ہے سہرا

مشک زا، مشک بار ہے سہرا

غم زدہ ، غم گسار ہے سہرا

درد دل کا قرار ہے سہرا

نور و نکہت کا ہے سماں ہر سو

مثل فصلِ بہار ہے سہرا

باپ کے خواب کی حسیں تعبیر

ماں کے دل کی پکار ہے سہرا

دو دلوں کا یہ جوڑنے والا

ایک روحانی تا رہے سہرا

عبدِ قیوم کی دعاؤں کا

اک حسیں شاہکار ہے سہرا

کہہ رہے ہیں یہ مولوی خالد

کس قدر شان دار ہے سہرا

مفتی راشد ، علی امام ، ارشاد

بول اٹھے : جان دار ہے سہرا

احتشام ، آفتاب اور ریحاں

کے دلوں کا قرار ہے سہرا

بھائی سمنانی اور جیلانی

کے لیے با وقار ہے سہرا

مفتی سرور غلام نے یہ کہا

رحمت کردگار ہے سہرا

ساجد ، احسان اور وصی اختر

کی نگاہوں کا پیار ہے سہرا

نوشا بابو غلام عثمانی

تیرے سر کا وقار ہے سہرا

بی بی مهناز فاطمه تیری

آرزوؤں کا ہار ہے سہرا

ہر جہت سے طفیلؔ مصباحی

لائق افتخار ہے سہرا

 

مری بیٹی تری شادی کی ڈولی اٹھنے والی ہے

 

کلام :شفیع اعظمی ابراهیم پورا اعظم گڑھ

مری بیٹی تری شادی کی ڈولی اٹھنے والی ہے

تو اپنے محترم خاوند کے گھر جانے والی ہے

چمن جیسا یہ گھر تیرا جہاں بچپن تر اگزرا

یہاں سے چھوڑ کر سب کو تو رخصت ہونے والی ہے

ہمیشہ کے لیے اب آج سے ہو گا وہ گھر تیرا

تو اپنے گھر سے جس گھر کو روانہ ہونے والی ہے

تری سسرال کی چوکھٹ ہے تیری منتظر بیٹی

ترے قدموں کا وہ چاہت سے بوسہ لینے والی ہے

مری بیٹی خدائے پاک تجھ کو حوصلہ بخشے

تو ذمے داریوں کے راستے پر چلنے والی ہے

بڑی مشکل سے اپنے دل پہ رکھ کر صبر کا پتھر

بہن تیری تجھے رو رو کے رخصت کرنے والی ہے

تری امی ترے ابو ترے بھائی کی آنکھوں میں

جو اک حسرت ہے وہ تجھ سے بہت کچھ کہنے والی ہے

خدائے پاک کے فضل و کرم سے اسے مری بیٹی

حریم دل میں تیرے شمعِ الفت جلنے والی ہے

ترے دادا چچا ماموں سبھی کے پیار کی خوشبو

ترے دل اور تیری روح کو مہکانے والی ہے

تری دادی چچی خالہ تری بھابھی کی آنکھوں میں

خوشی کی جو چمک ہے وہ تجھے چمکانے والی ہے

تری سکھیوں کے ہونٹوں پر دعا جو ہے ترے حق میں

ہر اک مشکل سے وہ تیری حفاظت کرنے والی ہے

نہ دل چھوٹا کبھی کرنا ترے جتنے بھی اپنے ہیں

مری بیٹی دعا سب کی ترے کام آنے والی ہے

 

تری چاہت ترے ارمان کے گلشن کی شاخوں پر

مسرت کی حسیں بلبل ترانہ گانے والی ہے

کریں گے جس میں مرغان محبت زمزمہ خوانی

ترے دل کے گلستاں میں وہ محفل سجنے والی ہے

اجالے پھیلنے والے ہیں تیرے دل کی دنیا میں

مسرت کی ضیا سے ظلمت غم چھٹنے والی ہے

تری شادی میں یہ بجتی ہوئی نغموں کی شہنائی

ترادا من مسرت کے گھر سے بھرنے والی ہے

ترے خواب تمنا کے مہ کامل کی ضوریزی

حقیقت میں ترے دل کے محل پر پڑنے والی ہے

خدائے پاک کی ہوتی ہے رحمت ایسی عورت پر

جو دل سے اپنے شوہر کی اطاعت کرنے والی ہے

کوئی مشکل کبھی مغلوب تجھ کو کر نہیں سکتی

درود پاک تو پیارے نبی پر پڑھنے والی ہے

یہ پیارا رخصتی نامہ جو ہے ، اس کی حسیں خوشبو

تری منزل کا تجھ کو راستہ دکھلانے والی ہے

مرے افکار کے بادل بھی رخصت ہونے والے ہیں

مرے اشعار کی برسات بھی اب تھمنے والی ہے

شفیع خوش نوا تحریر یہ تیری محبت سے

شبستان محبت میں سجا کر رکھنے والی ہے

 

دعا ہے یہ سرکار نعمت کا سہرا

 

کلام :غلام رسول احمد ضیا سیتا مڑھی

دعا ہے یہ سرکار نعمت کا سہرا

ہو خوشیوں کا انبار نعمت کا سہرا

مبارک ہو زوجین کو زندگی بھر

بنا ہے جو دستار نعمت کا سہرا

معطر منور فضا کہہ رہی ہے

ہے پھولوں کی مہکار نعمت کا سہرا

چمکتا ، دمکتا ، رہے میرے مولی

ہمیشہ لچکدار نعمت کا سہرا

یہ منصور بولے مبارک حسن سے

ہے الفت کا مینار نعمت کا سہرا

دعا رنگ لے آئی انوار تیری

یہ کرتا ہے اظہار نعمت کا سہرا

ریاض الحسن کہہ رہے ہیں سبھی سے

بہت ہی ہے دمدار نعمت کا سہرا

کرایا ہے احمدؔ تبارک میاں نے

محبت سے تیار نعمت کا سہرا

 

آج نوشاہ کے چہرے پہ خوشی چھائی ہے

 

کلام :شفیع اعظمی ابراہیم پورا عظم گڑھ

 

آج نوشاہ کے چہرے پہ خوشی چھائی ہے

جشن شادی کی زہے بخت گھڑی آئی ہے

جشن شادی کے چراغوں کی ضیا پاشی سے

فکر نوشاہ نے پر کیف جلا پائی ہے

ماں کی ممتا کا یہ صدقہ ہے مبارک سہرا

ایک ناقابل انکار یہ سچائی ہے

بھائی بہنوں کی مناجات کا فیضان ہے یہ

روئے نوشہ پہ جو فرحت کی گھٹا چھائی ہے

آج ماں باپ کے گلہائے دعا کی خوشبو

اپنے فرزند کے سہرے میں چلی آتی ہے

سن کے نغمات طرب کہتے ہیں مطرب سے سبھی

قابل رشک تری زمزمہ پیرائی ہے

دو دلوں کا ہے چھپا شوق محبت اس میں

آج گونجی ہوئی شادی کی جو شہنائی ہے

حسن نوشاہ کا پھولوں سے تعلق ہے عجیب

ایسا لگتا ہے کہ برسوں کی شناسائی ہے

اپنے چہرے سے ہٹائیں ذرا پھولوں کا نقاب

کب سے ہر آنکھ زیارت کی تمنائی ہے

کتنی پر کیف یہ بارات ہے ماشاء اللہ

دیکھیے جس کو بصد شوق تماشائی ہے

مشکبو محفل شادی کا یہ لمحہ لمحہ

مرحبا قاطع تار شب تنہائی ہے

سادے انداز میں ہم نے یہ لکھا ہے سہرا

لفظ بھی عام ہیں لہجہ بھی علاقائی ہے

مری ہر بات میں سوبات ملے گی صاحب

گرچہ انداز بیاں قدرے ڈرامائی ہے

یہ بھی حکمت پہ ہے محمول جو سمجھے کوئی

ہم نے اک بات کی بار جو دہرائی ہے

 

یہ ضیا بار سماں دیکھ کے شادی کا شفیع

ایک ٹھنڈک سی کیجے میں اُتر آئی ہے

 

خالق کون و مکاں کی ہے یہ نعمت سہرا

 

کلام :محمد طفیل احمد مصباحی بانکا

 

رب تبارک و تعالیٰ کی ہے رحمت سہرا

خالق کون و مکاں کی ہے یہ نعمت سہرا

مصطفی جان دو عالم کی ہے سنت سہرا

چشم و دل کے لیے ہے وجہ طہارت سہرا

مرحبا ! دیکھیے ہے باعث زینت سہرا

حبذا ! باعث تسکین طبیعت سهرا

اوج پر کیوں نہ ہو قسمت تری نوشاہ بابو

شاہ سبطین کی ہے تجھ پہ عنایت سہرا

جس کے ماتھے پہ بھی سجتا ہے بھلا لگتا ہے

زندگی کی ہے یہ پر کیف حقیقت سہرا

جشن شادی ہو مبارک تمھیں دولھا دلھن

نصف ایمان کی دیتا ہے ضمانت سہرا

باغ فردوس کی حوریں بھی ہیں قرباں اس پر

رخ نوشہ پہ ہے سرمایہ عزت سہرا

ماہ و انجم بھی اسے کرتے ہیں جھک جھک کے سلام

رشک خورشید ہے یا پھر مہ طلعت سهرا

 

ہے یہ ماں باپ کی پر سوز دعاوں کا اثر

بیٹے نے پہنا ہے جو تاج محبت سہرا

باغ ہستی میں کھلا د یکھیے ارماں کا گلاب

مشک و عنبر کی طرح تجھ میں ہے نکہت سہرا

خوش برادر ہیں سبھی بہنیں ہیں شاداں بے حد

آج سب کے لیے ہے باعث فرحت سہرا

پیش کرتے ہیں رفیقان گرامی تبریک

چشم احباب میں ہےکحل مسرت سہرا

کہہ رہے ہیں یہی ۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔

تیرے گھر لائے گا بے شک بڑی برکت سهرا

چشم ۔ ۔ ۔ میں روشن ہے سراپا تیرا

اور سب تیرے سراپا کی ہے طلعت سہرا

۔۔۔ اور ۔ ۔ ۔ آئے دعائیں لے کر

سب دعاوں سے ہے بے شک یہ عبارت سہرا

آج ۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔و چچا ۔ ۔ ۔ بھی

دیکھتے ہیں ترا صدر شک نزاکت سہرا

شادماں شادماں ہیں ۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔

لایا ہے ان کے لیے اک نئی فرحت سہرا

۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔ ہیں شاد

ان کے تفسیدہ جگر کی ہے طراوت سہرا

۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔

بول اٹھے ہے ترے ارمان کی جنت سہرا

۔ ۔ ۔ کے لب پر بھی ہے نغمہ جاری

شوق سے کرتی ہیں وہ تیری زیارت سہرا

 

کیجیے بھائی ۔ ۔ ۔ آپ یہ سوغات قبول

پیش احمدؔ نے کیا نذرِ عقیدت سہرا

 

فضل مولی سے حسیں آئی ہے ساعت دیکھیے

 

کلام :محمد طفیل احمد مصباحی بانکا

 

فضل مولی سے حسیں آئی ہے ساعت دیکھیے

مصطفی کی ہو گئی تم پر عنایت دیکھیے

النكاح سنتی فرمان ہے سر کار کا

ہو رہی ہے دھوم سے تعمیل سنت دیکھیے

رنگ لے آئی دعا ماں باپ کی کچھ اس طرح

اوج پر بابو ۔ ۔ ۔ ۔ کی آج قسمت دیکھیے

گلستان آرزو میں آگئی ایسی بہار

پیار کے اس پھول میں کیسی ہے نکہت دیکھیے

طاقِ دل میں ہو گیا روشن محبت کا چراغ

جھلملا نے اب لگی دل کی عمارت دیکھیے

آج بھی سایہ فگن ہے والدِ ماجد کا ہاتھ

حضرت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ادر یس کی زندہ کرامت دیکھیے

کس قدر پر کیف ہے منظر سماں ہے عید کا

ہر طرف چھائی ہوئی ہے یاں مسرت دیکھیے

نور کی برسات سے روشن در و دیوار ہیں

خالقِِ ارض و سما کی خاص رحمت دیکھیے

 

لے کے خوشیوں کی ادا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں مگن

بھائی ۔۔۔۔ کے بھی چہرے پر بشاشت دیکھیے

ہیں برادر ۔ ۔ ۔ و ۔ ۔ ۔ شاداں بزم میں

اک بڑے کی ہوتی ہے چھوٹے پر شفقت دیکھیے

آج بہنیں گا رہی ہیں گیت خوشیوں کے یہاں

پیار میں بھائی کے لب پر ہے مسرت دیکھیے

۔ ۔ ۔ و۔ ۔ ۔ بھائی یہ لپک کر بول اٹھے

بڑھ گئی ہے آج تیری شان و شوکت دیکھیے

شاد ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھی اور ۔ ۔ ۔

سب کے دل میں ہے بسی نوشہ کی چاہت دیکھیے

کیف و مستی میں ہے ۔۔۔ اور ۔ ۔ ۔ یہاں

مثل غنچہ مسکرائی ان کی چاہت دیکھیے

تاج سلطانی بھی شرما جائے اس کو دیکھ کر

بزم امکاں میں ہے سہرے کی یہ عظمت دیکھیے

قوم مسلم غور سے سن ! ہے بخاری کی حدیث

بهر شادی لڑکیوں میں نیک سیرت دیکھیے

پھول سہرے کا ہے اتنا پر کشش کہ آگئے

قدسیانِ چرخ بھی بہر زیارت دیکھیے

غنچہ الفت سے آنگن ہے مہکتا چار سو

آئی ہے ۔ ۔ ۔ بن کے مثل جنت دیکھیے

ہو مبارک تم کو شادی اے مرے پیار ۔ ۔ ۔

بس یہی تحفہ لیے احمدؔ کی شرکت دیکھیے

 

کیسا باغ و بہار ہے سہرا

 

سہرا سر کار تاج الشریعہ

کیسا باغ و بہار ہے سہرا

کس قدر خوشگوار ہے سہرا

نورِ جانِ بہار ہے سہرا

غیرتِ لالہ زار ہے سہرا

کس کے رخ پر نثار ہے سہرا

کس کیلئے تار تار ہے سہرا

کیا گہر ہے بجائے گل اس میں

کس قدر آب دار ہے سہرا

رحمت دو جہاں کے جلوے ہیں

گلشن نو بہار ہے سہرا

رضویوں کی بہار ہے سہرا

سنیوں کا قرار ہے سہرا

نجدیوں کو کہاں ہے تابِ نظر

آتش شعلہ بار ہے سہرا

سینۂ یار کے لئے ٹھنڈک

دلِ اعدا میں خار بے سہرا

چشمِ بد دور کیوں نہ ہو تجھ سے

تیرے رخ کا حصار ہے سہرا

گلشن فیض مفتی اعظم

رشک صد لالہ زار ہے سہرا

از طفیل شفیع بهر سعید

زندگی کی بہار ہے سہرا

پھول سہرے کے کہہ رہے ہیں سنو!

ماں کے دل کی پکار ہے سہرا

 

ہیں رفیق و حسن بھی نعرہ زن

واہ کیا خوشگوار ہے سہرا

رخ رضیہ پہ تازگی ہے نئی

تازگی کا نکھار ہے سہرا

فاطمہ صابرہ کے صدقے میں

باقی و پائیدار ہے سہرا

شاہدہ پر بھی کیف طاری ہے

کس خوشی کا خمار ہے سہرا

ہے زلیخا بھی پیکر حیرت

کیا انوکھا نکھار ہے سہرا

اور عطیہ بھی مسکراتی ہے

مسکراتی بہار ہے سہرا

سعدیہ اور زبیدہ گاتی ہیں

واہ کیا شاہکار ہے سہرا

هو امان و حمیدہ کو مژدہ

رحمت کردگار ہے سہرا

کھینچ لائی شمیم ہر دل کو

کس قدر خوشگوار ہے سہرا

عقد فرمانِ سرور دیں ہے

اذن پروردگار ہے سہرا

رنگ طوبیٰ ہے پردۂ گل میں

کیا بہشتی بہار ہے سہرا

بندش خوشگوار بلبل و گل

دو دلوں کا قرار ہے سہرا

 

نور میں سب نہا گئی محفل

نور کا آبشار ہے سہرا

سب لگاتے ہیں نعرہ تحسین

واہ کیا خوشگوار ہے سہرا

چاند سے چہرہ سعید ، اخترؔ

اور ستاروں کا ہار ہے سہرا

 

یہ بزرگوں کا عطاء کر دہ ہے پیارا سہرا

 

کلام: گوہر

 

یہ بزرگوں کا عطاء کردہ ہے پیارا سہرا

اس لئے اور ہوا افضل واعلی سهرا

مرحبا صلی علی خوب سنوارا سهرا

رخ نوشاہ پہ لگتا ہے دل آرا سہرا

کتنا دلکش ہے حسین اور شگفتہ سہرا

سب عزیزوں کو کئے دیتا ہے شیدا سہرا

ہو گیا نور سے معمور رخ نور نظر

جس گھڑی ماں نے کلیجے سے لگا یا سہرا

محترم والد قبلہ نے دعائیں دی ہیں

اس لئے ہو گیا تسکین سراپا سہرا

سارے احباب مسرت سے مچل اٹھے ہیں

کتنی خوشیاں مرے گھر لے کے ہے آیا سہرا

 

سبکو دیوانہ کئے دیتا ہے محفل میں سلیم

کیسا جاذب و منور ہے تمھارا سہرا

پھوٹی پڑتی ہے محبت کی کرن لڑیوں سے

سر پہ یہ نوشاہ کے کیا خوب بندھا یا سہرا

التفات عالم و اقلیم شرافت و رئیس

دیکھ کر شاد ہیں رانی و شمیمہ سہرا

شاد شهناز میں شاہین اور پروبین و ندیم

دیکھ کر مست ہیں شہرین و رقیہ سہرا

شمس توفیق ہوں کہ حضرت سبحان و شہاب

سب نے ملکر کے محبت سے ہے گا یا سہرا

عائرہ ار حم و عبد الله عیان و صفوان

ہر کسی کو ہے لگا خوب دل آرا سہرا

خوش نظر آتے ہیں رحمان اور ارحان و فہد

جب ہوا جلوہ نما باندھ کے نوشہ سہرا

نانا شبیر کی بھی روح کو آئیگا قرار

آئیگا باندھ کے جب ان کا نواسہ سہرا

احمد حمدان و حمید اور عبید و کونین

ہو گیا سب کے لئے جان تمنا سہرا

فیصل و زید کے ہمراہ سبھی گانے لگیں

ساره حورین و ردا اور شبینہ سهرا

بدعت و شرک جو سہرے کو کہا کرتے ہیں

آج آنکھوں میں فقط ان کی گرٹیگا سہرا

اہلسنت کا نگہبان ہو جس کا دادا

اس کے پوتے کے نہ کیوں سر پہ بند ھیگا سہرا

 

اور منظر کوئی ذیشان کو بھاتا ہی نہیں

دیکھ کر اپنی نگاہوں سے اخی کا سہرا

جھومے جاتے ہیں مسرت سے قدیر و سلمان

کسقد ر پوچھئے مت ان کو ہے بھایا سہرا

شادمان آج ہوے ارشد راشد معروف

چھا بابا کی نگاہوں کو بھی بھایا سہرا

فیصل عمران ہوں ذیشان کہ آصف ثاقب

سب نے ملکر کے محبت سے ہے گا یا سہرا

خالہ پھوپھی و بوا چچی ممانی بہنیں

سب کی نظروں میں محبت سے سمایا سہرا

نانا ماما نے دعاوں سے نوازا ہے اسے

اب تو یہ اوج ثریا پہ رہیگا سهرا

غیر محرم سے کرے پردہ دلہن نوشہ کی

بخش دے مولی اسے شرم و حیا کا سہرا

جشن شادی میں جو نوشہ ہوا رونق افروز

رشک کرنے لگا ہر دیکھنے والا سہرا

دھوم شادی میں بھی سنت کے مطابق ہو سلیم

تاکہ رب کو بھی لگے خوب تمھارا سہرا

جس سے راضی ہو خدا اور شہ دیں خوش ہوں

مہر پہ للہ تم ایسا ہی سجانا سہرا

محفل عقد میں اسے ناچنے گانے والے

مشورہ میرا ہے نیکی کا خدارا سہرا

باندھے شوق سے نوشاہ کے سر پر یارو

ہاں یہ جائز ہے شریعت میں گلوں کا سہرا

 

سارے انسان جسے سن کے نصیحت پائیں

سازیہ آئی میں پڑھتے ہوئے ایسا سہرا

ناچ گانے سے بہت دور رہا کرتے ہیں

جن کی نظروں میں ہے محبوب خدا کا سہرا

نیک تلقین تمھیں کرتے ہیں چچا بابا

تا کہ فیضان کا ہو جائے تمھارا سہرا

غیر حاضر ہوں مگر دل تو ہے حاضر گوہرؔ

میرا پیغام محبت ہے سراپا سہرا

 

 

عمر بھر حاصل ہو اس کو زندگی کی ہر خوشی

 

ہو صغیرہ کو مبارک ازدواجی زندگی

عمر بھر حاصل ہو اس کو زندگی کی ہر خوشی

لب پہ ہے ارشاد کے بیٹی کے حق میں یہ دعا

ہو شگفتہ اس کے باغ زندگی کی ہر کلی

ماں شکیلہ کے لبوں پر ہے یہی پیہم دعا

بیٹی اور داماد میں ہو ایک ربط باہمی

چاہتے ہیں نعمت اللہ اور شفیق اللہ بھی

ہو بہن کو ان کی حاصل عمر بھر آسودگی

حشمت اللہ اور افضل کے ہے لب پر یہ دعا

ہو میسر ان کی خواہر کو نشاط زندگی

ہو بہن کو ان کی حاصل عمر بھر ذہنی سکوں

ہے نذیرا اور صفورا کی تمنائے ولی

ہیں نشاط و کیف سے سر شار شبنم اور شمیم

روئے زیبا کی چمک ہے آج ان کے دیدنی

بھانجی کو دیکھ کر میں شادماں عبدالجلیل

چاہتے ہیں اس کے چہرے پر ہمیشہ تازگی

 

عیاں ہے جلوہ ، حسن خدا سہرے کے پھولوں میں

 

کلام :محمد طفیل احمد مصباحی

 

 عیاں ہے جلوہ ، حسن خدا سہرے کے پھولوں میں

 نظر آتی ہے سنت کی ضیا سہرے کے پھولوں میں

پلٹ آئی بہار خوشنما سہرے کے پھولوں میں

سمٹ آئی حسینوں کی ادا سہرے کے پھولوں میں

مشام جاں معطر کیوں نہ ہو پیر و جواں سب کا ؟

 بسی ہے جب کہ خوشبوئے وفا سہرے کے پھولوں میں

نبی نے النکاح سنتی فرما کے دنیا میں

پیام حق نمایاں کر دیا سہرے کے پھولوں میں

یہ ماں اور باپ کی بیشک دعاؤں کا کرشمہ ہے

چمکتی ہے محبت کی ضیا سہرے کے پھولوں میں

رخ نوشا چمکتا ہے ستاروں کی طرح دیکھو !!!

کسی نے رکھ دیا ہے آئنہ سہرے کے پھولوں میں

مثال مشک و عنبر دل کا ہر گوشہ مہکتا ہے !!!

عرق باغ جناں کا ہے ملا سہرے کے پھولوں میں

فلک سے چاند ، تارے بھی اتر آئے زیارت کو !!!

 یہ کس کا حسن ہے جلوہ نما سہرے کے پھولوں میں

بلندی پر نصیبہ کیوں نہ ہو صدام ، لاڈو کا

کنول ارمان کا ہے جب کھلا سہرے کے پھولوں میں

مسرت کے ترانے گونج اٹھے ہر طرف دیکھو

ہوئی جس وقت تکمیل وفا سہرے کے پھولوں میں

فضا پر کیف ہے ساری ، در و دیوار روشن ہیں

خدا جانے یہ کیسی ہے ضیا سہرے کے پھولوں میں

بڑے بھائی شمیم احمد ہیں شاداں آج محفل میں

عجب رنگ مسرت ہے جما سہرے کے پھولوں میں

جناب اقبال بھائی نے کہا صدام بابو کو

 که نوشا آج اک دم جچ رہا سہرے کے پھولوں میں

وسیم احمد کا چہرہ کیوں مسرت سے نہ کھل اٹھے

 ہے لپٹی جب کہ خوشیوں کی ردا سہرے کے پھولوں میں

نسیم و زاہد واحمد رضا بولے مسرت سے

و یہ نوشا ہے یا کوئی مہ لقا سہرے کے پھولوں میں

پڑی جس دم نظر تبریز کی نوشاه بابو پر

کہا : اھلا و سهلا مرحبا سہرے کے پھولوں میں

شہادت اور اسماعیل میں مسرور محفل میں

 انھیں دولہا بہت ہی بھا گیا سہرے کے پھولوں میں

زرینہ اور رزینہ آج پھولے نا سماتی ہیں !!!

سکوں شہناز کو بھی ہے ملا سہرے کے پھولوں میں

دعا ہے رب سے احمدؔ کی خدائے پاک سے ہر دم

رہے غنچہ محبت کا ہرا سہرے کے پھولوں میں

 

سرکارِ دو عالم کا کرم ، فضل خدا ہے !!!

 

کلام :محمد طفیل احمد مصباحی

 

سرکار دو عالم کا کرم ، فضل خدا ہے !!!

نوشاترے ماتھے پہ جو سہرا یہ سجا ہے

اللہ کی رحمت کی تنی سر پہ ردا ہے

پر کیف ، حسیں ، نور سے پُر نور فضا ہے

گلزار مدینہ کی بہاروں کی بدولت

گلشن میں ترے پھول مسرت کا کھلا ہے

سہرشہ کو نین کی سنت کا سجا کر

صد شکر مکمل ترا ایمان ہوا ہے !!!

بجنے لگیں شہنائیاں دو دل میں خوشی کی

نوشا ترے ماں باپ کی رنگ لائی دعا ہے

حیرت سے بھلا کیوں نہ ستارے اسے دیکھیں

صد رشک قمر چہرہء نوشا کی ضیا ہے !!!

خوشیوں کے یہ لمحات مبارک ہوں مبارک

ماں باپ کی خدمت کا صلہ خوب ملا ہے

کہتے ہیں یہ ابا بھری محفل میں اے بیٹا

ملت کے مجاہد کا تجھے صدقہ ملا ہے

پھوپھا و چچا دل سے دعا د یتے ہیں نوشا

پھوپھی کا بھی دل آج بھتیجے پہ فدا ہے

ان جوڑوں کو مولیٰ تو سدا رکھنا سلامت

مشتاق چچا، دادا سکندر کی دعا ہے !!!

دیتے ہیں بدھائی تجھے توحید اے نوشا

طاہر کے لبوں پر بھی ترے حق میں دعا ہے

بہنوئی صنوبر و عمر جھوم کے بولے

اے بھائی ضیاول ترے چہرے پہ ضیا ہے

پھولے پھلے ارمان کا گلزار ہمیشہ !!!

یہ قمر زماں بھائی کی دھڑکن کی صدا ہے

اور شاہدہ و زاہدہ کہتی ہیں خوشی سے

سج دھج کے بہت بھائی مرا نوشا بنا ہے

خوش ہو کے یہ ہر ایک سے کہتا ہے ثناؤل

ارماں کا کنول بھائی ضیاؤل کا کھلا ہے

پھولے نہ سماتی ہیں بہن آمنہ دیکھو!!

سو جان سے دل اس کا برادر پہ فدا ہے

تنویر و مشاہد کے لبوں پر ہے تبسّم!!

شمشیر پہ بھی رنگ مسرت کا چڑھا ہے

شادی ہو مبارک تجھے اے بھائی ضیاؤل

یہ جملہ مجیب نے بھی بصد شوق کہا ہے

اعجاز بھی اس بزم مسرت میں ہیں حاضر

صادق کے لبوں پر بھی مسرت کی ادا ہے

احمدؔ کی دعا رب سے ہے ہر دم رہے باقی !!

دلہن کے جو ہا تھوں میں لگا رنگ حنا ہے

 

 

خلد بریں سے آیا حمد و ثنا کا سہرا

 

کلام: حسیب آرزو بکسر

 

خلد بریں سے آیا حمد و ثنا کا سہرا

تیرے سر پہ جو سجا ہے صل علی کا سہرا

پھولوں کی کلیوں کی دلکشی

سہرے کی لڑیوں کی روشنی

محفل پہ چھا گیا ہے نوشتہ تمہارا سہرا

حور و ملک یہ جن و بشر

یہ کہکشاں یہ شمس و قمر

حیرت سے دیکھتے ہیں رب کی عطا کا سہرا

ماموں بھی خوش ہیں خوش ہیں چچا

خوشیوں میں کہتے ہیں یہ پھوپھا

دلکش ہے دلنشیں ہے میرے دلربا کا سہرا

نوشے کے سہرے کو چوم کر

احباب کہتے ہیں جھوم کر

میرے یار ہو مبارک تم کو وفا کا سہرا

ماں کی دعاؤں کا ہے اثر

والد کی الفت کا ہے ثمر

بھائی بہن نے باندھا اس مہ لقا کا سہرا

بس آرزوؔ کی ہے یہ دعا

رکھنا سلامت ان کو خدا

جیسے رہا سلامت کل اولیا کا سہرا

تیرے سر پہ جو سجا ہے صل علی کا سہرا

 

رحمت و انوار کا اک سلسلہ سہرے میں ہے

 

کلام :محمد سرفراز احمد قادری

 

فضل حق عرفان حق نور خدا سہرے میں ہے

رحمت حق اور عطا سے مصطفے سہرے میں ہے

حضرتِ حسنین کی شامل دعا سہرے میں ہے

غوثِ اعظم کا کرم بے انتہا سہرے میں ہے

سیدِ سالار کی پیاری عطا سہرے میں ہے

حضرت احمد رضا خاں کی رضا سہرے میں ہے

آپ کو مل جائے گا سارے سوالوں کا جواب

پوچھیے مخدوم اشرف سے کہ کیا سہرے میں ہے

اس میں شامل ہے یقینا باغ طیبہ کی بہار

رحمت و انوار کا اک سلسلہ سہرے میں ہے

حضرت ھندالولی کا اس پہ ہے چشم کرم

ہاں ہاں احمدؔ جلوء خواجہ پیا سہرے میں ہے

 

جس کا منظر ہمیں پیارا پیارا لگا وہ ہے سہرا تراوہ ہے سہرا ترا

 

کلام :محمدازہر

 

جس کا منظر ہمیں پیارا پیارا لگا وہ ہے سہراترا وہ ہے سہراترا

جس میں پائی گئی مصطفی کی عطاوہ ہے سہرا ترا وہ ہے سہرا ترا

فضل رب العلی جس میں پایا گیا اور فیضانِ صلِ علی ہو گیا

چاند بھی دیکھ کر جس کو شر ما گیا وہ ہے سہرا ترا وہ ہے سہرا ترا

 

پھول بغداد کے کلیاں اجمیر کی انکے والد مچل کے یہ کہنے لگے

نور نے گھر کو ہے جس کے چمکا دیا وہ ہے سہرا ترا وہ ہے سہرا ترا

 

انکے والد نے بھی جھوم کر یہ کہا اور ماں نے بھی خوش ہو کے یہ کہدیا

گھر کو مہکا گئی جس کی پیاری ضیاء سہرا ترا وہ ہے سہرا ترا

 

بہنیں آپس میں خوشیاں منانے لگیں اور دعا بھائی کو اپنے دینے لگیں

 آج ہے جاں گزیں جس میں فضل خدا وہ ہے سہرا ترا وہ ہے سہرا ترا

 

نور و نکہت میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہے سماں آج دولھا کو دیکھو لگے مہرباں

دیکھ کر جس کو سب دوستوں نے کہا وہ ہے سہرا ترا وہ ہے سہرا ترا

رشک کرتے ہیں جس پر ملائک تمام اور کرتے ہیں خوشیوں کے وہ اہتمام

جس کا ازہرؔ ہر اک سمت شہر اہوا وہ ہے سہرا ترا وہ ہے سہرا ترا

 

خدا کا کرم ہے ، نبی کی عطا ہے !

 

کلام : محمد طفیل احمد مصباحی

 

خدا کا کرم ہے ، نبی کی عطا ہے !

ترے سر پہ نوشا جو سہرا سجا ہے

جدھر دیکھیے نور کا سلسلہ ہے

معطر ، معظر ، یہ ساری فضا ہے

بہاروں کا موسم ہے سج دھج کے آیا

محبت کا گلشن مہکنے لگا ہے !!!

ذرا دیکھیے قطرہ، نور ونکہت

جھما جھم جھما جھم برسنے لگا ہے

یہ تقریب شادی ، یہ جشن بہاراں

حسیں زندگی کی ، حسیں ابتدا ہے

مبارک ہو سر دار رستم علی کو

کہ لخت جگر ان کا دولہا بنا ہے

ہے نوشا و دلہن کے لب پر تبسم

کنول دل کے ارماں کا جس دم کھلا ہے

ہوئی تجھ پہ توفیق رب کی عنایت

نصیبہ تراجگمگانے لگا ہے !!!

مقدر کا تو بن گیا ہے سکندر !!!

تجھے غوث و خواجہ کا صدقہ ملا ہے

مبارک ہو تجھ کو اے مولانا زاہد !!

ترے گھر میں خوشیوں کا میلہ لگا ہے

شهنواز و شهباز و آفاق و رحمت

ہر اک نے مسرت کی پہنی روا ہے

سرافراز ، چھوٹے و بہنوئی شاہد

زباں پر لیے تمغہء مرحبا ہے !!!

بہن پیاری پھولے نہیں ہیں سماتی !!

خوشی کا وہ آنکھوں میں کا جل لگا ہے

ولسن آمنہ اور توفیق نوشا !!!!

تمہارے لیے سب کے لب پر دعا ہے

یہ بولے حسن آج بھیا تمہارے

مقدر کا تارا چمکنے لگا ہے !!!

رہے بے خزاں تیری الفت کا گلشن !!

یہ ماں اور ماما کی رب سے دعا ہے

یہ معروف اور ماما شاہد بھی بولے

کہ بھانجا مرا آج نوشا بنا ہے !!

بصد شوق کہنے لگے ہیں یہ عارف

یہ دل تجھ پہ بھانجا مکمل فدا ہے

ہیں جبریل ، رضواں بھی محفل میں حاضر

لبوں پر تبسم کی دیکھو ادا ہے !!!

شہ عالم بھی ، احمد رضا بھی ہیں شاداں

انھیں نوشا سہرا ترا بھا گیا ہے !!!

ہیں توصیف و توقیر واحمد بھی شاداں

خوشی ان کے دل میں بھی حد سے سوا ہے

بھری بزم میں آج توفیق و سونو

مسرت سے نوشا تجھے دیکھتا ہے !!

ہیں محفل میں سارے ہی احباب حاضر

مسرت سے ہر اک کا چہرہ کھلا ہے

ہیں انظر بھی خوش اور نعیم و ثناؤل

نگاہوں کا مرکز جواہر بنا ہے !!!

امائل، گل افراز، نوشاد، رنگو

ہر اک کے لبوں پر تبسم کھلا ہے

رضا ، مارجن اور شہباز بولے !!!

ترے رخ پہ نوشاہ چمکتی ضیا ہے

کیا یک زباں ہو کہ سب نے اے احمدؔ

بہت خوب تم نے یہ سہرا لکھا ہے

 

ادا کی تم نے شاہ طیبہ کی سنت مبارک ہو

 

کلام :ریاض احمد برکاتی

 

ادا کی تم نے شاہ طیبہ کی سنت مبارک ہو

 مرے بھائی تمہیں خوشیوں کی یہ ساعت مبارک ہو

مرے شبیر کے سر پر سجا ہے سہرا پھولوں کا

 نرالی اس کی خوشبو اور نئی رنگت مبارک ہو

لحدمیں والدہ شمش النساء بھی آج خوش ہوں گی

یہی وہ کہتی ہوں گی لال کی چاہت مبارک ہو

ہے قاسم خان کے لب پر دعائیں ہی دعائیں بس

 دل ان کا کہہ رہا ہے لال کی قسمت مبارک ہو

مرے شبیر کے گھر کی حدیثہ بن گئی رونق

 گھر اس کی برکتوں سے بن گیا جنت ، مبارک ہو

خوشی سے آج تو فردوس اڑتی ہے ہواؤں میں

یہ کہتی ہے مرے بھیا تجھے فرحت مبارک ہو

شگفتہ کی تو خوشیوں کا ٹھکانہ ہی نہیں ہے آج

ہے اس کے لب پہ تم کو سہرۂ عزت مبارک ہو

دعائیں ماموں مامی کی تمہارے ساتھ ہیں ہر دم

 رہیں گی تم پر ان دونوں کی ہی شفقت ، مبارک ہو

یہ مانا دور ہیں اعجاز اور فیاض تم سے پر

وہ کہتے ہیں تمہیں یہ قیمتی دولت مبارک ہو

روبینہ کی دعائیں ہیں تمہارے واسطے شبیر

یہ کہتا ہے ریاضؔ ، اللہ کی نعمت مبارک ہو

 

 

پدر مادر کے چہرے پر مسرت بے شمار آئی

 

کلام :امانت  اعلیٰ حضرت

 

بحمدِ اللہ رضوی دولہا کے گھر پر بہار آئی

درودِ مصطفیٰ کی چار جانب سے پکار آئی

شہِ بطحا کے سہرے کے تصدق میں یہ دن دیکھا

مرے نوشاہ کے سہرے کی لڑیوں پر بہار آئی

کرم ہے غوث اعظم کا دعائے مفتی اعظم

پدر مادر کے چہرے پر مسرت بے شمار آئی

مبارک ہو مبارک ہر طرف سے یہ پکار آئی

سناتی سب کو مژدہ رحمت پروردگار آئی

سدا پھو لیں پھلیں دولہا دلہن اس باغ ہستی میں

سبھی احباب کے لب پر دعا یہ بار بار آئی

نہیں کچھ چھیڑنا اس وقت پر ماضی کا افسانہ

ہوں مستقبل کی باتیں یہ صدائے خوشگوار آئی

امانتؔ قادری کہد و مبارک ہو مبارک ہو

عروس نَو’ کو لے کر رحمتِ پروردگار آئی

 

 

 

 

 

احساسات رحمتی

 

کلام: پیکر رضوی پشنه

 

تیرا سسرال کی جانب جو سفر ہے  بیٹی

آج یہ چشم محبت مری تر ہے بیٹی

کیسے دکھلاؤں جو اس دل پہ اثر ہے بیٹی

ہاں ، مگر رسم جہاں پیش نظر ہے بیٹی

فرض پورا ہوا خالق کا یہ احسان ہے بہت

دل مگر صدمۂ فرقت سے پریشاں ہے بہت

کیا کروں اپنی شریعت کا تقاضا ہے یہی

مذهب و ملت بیضا کا اشارا ہے یہی

میری نوری ترے دریا کا کنارا ہے یہی

اس گھڑی سب کی دعا سب کی تمنا ہے یہی

تو جہاں جائے وہاں شمس و قمر بنکے رہے

ہر نظر کے لئے ارمان نظر بنکے رہے

اپنے اخلاق سے عنوان سحر بن جانا

جاکے سسرال میں فردوس نظر بن جانا

اس نئے گھر کے لئے قلب و جگر بن جانا

مامتاؤں کی دعاؤں کا اثر بن جانا

حسن کردار سے روشن ہو عمل کی دنیا

تا کہ بن جائے مثالی ترے کل کی دنیا

 

 

 

ساز اخلاص و وفا خوب ہے گانے کے لئے

یہی سرخی ہے محبت کے فسانے کے لئے

تیرا اخلاق نمو نہ ہو زمانے کے لئے

سب ہوں تیار تجھے دل میں بٹھانے کے لئے

جس سے ہر فرد ہو خوش ایسا طریقہ رکھنا

جو بہو کا ہے سلیقہ وہ سلیقہ رکھنا

ہے تبسم پہ بہت تیری جدائی کا اثر

اور ممتاز و ترنّم بھی ہیں با دیدۂ تر

آج سلطانہ و تنویر کی بھیگی ہے نظر

ساتھ راشد بھی نظر آتے ہیں کچھ خستہ جگر

جان جاں تیری جو رخصت کی گھڑی آئی ہے

غم کے ہمراہ مسرت کی گھڑی آئی ہے

فرض ہے تجھ پہ بہت ساس سسر کی عزت

ان کے قدموں کے تلے تجھ کو ملے گی جنت

تیرے شوہر کی رضا ہے تری سچی عشرت

تجھ سے ہر طور ملے ان کو خوشی کی دولت

اپنی آنکھوں کا یہ مہتاب مبارک تجھ کو

زندگی کا یہ حسیں خواب مبارک تجھ کو

تجھ کو کرتی ہے جدا گرچہ یہ تقریب سعید

گاہے گاہے ہی ملے گی ترے رخسار کی دید

ہے دعا تیرے لئے زیست کا ہر روز ہو عید

پھولتا پھلتا رہے تیرا سدا نخل امید

تو اکیلی نہیں گھر بھر کی ہے چاہت بیٹی

پیچھے پیچھے ترے سب کی ہے محبت بیٹی

 

اب نظر ترسے گی جس کو وہ نظارا تو تھی

چشم رضوی کے فلک کا حسیں تارا تو تھی

سب یہ کہتے ہیں کہ سکھ چین ہمارا تو تھی

مرتضی، جعفری سب ہی کا سہارا تو تھی

 

اور کیا دے کوئی تو سب کی وفائیں لے جا

اپنے ہمراہ بزرگوں کی دعائیں لے جا

 

کیوں نہ کہ دوں ہے مقدر کا سکندر سہرا

 

کلام:محمد اجمل رضا

 

باندھ کر بزم میں آیا جو رضا اختر سہرا

فرط شادی سے ہوا جامے سے باہر سہرا

قابل دید ہے محفل میں یہ دوہری زینت

حسن زیور ہے تیرا ۔ حُسن کا زیور سہرا

کیوں نہ ہو باعث تسکین طبیعت سہرا

رخ نوشہ پہ ہے سرمایۂ عشرت سهرا

ایک گلدستۂ ساز و سر و ساماں دولها

ایک مجموعۂ لعل وزر و گوہر سہرا

باپ کا سایہ اقبال ہے تجھے ظل ہما

کیوں نہ کہہ دوں ہے مقدر کا سکندر سہرا

عبد الغفور بھی بہت خوش ہیں اس کے باعث

که سعادت کے بھانجے کے ہوا سر سہرا

خوش ہیں اجمل بھی دلشاد عا بد بھائی بھی

خوش ہیں سب دیکھ کے ہمشیر و برادر سہرا

نعمت اللہ کے گلشن میں بہار آئی ہے

ان کے گلشن میں ہے اللہ کی نعمت سہرا

اے سعید تیری قسمت کا ستارہ چمکا

تیرے سر پر ہے ضیائے مہ و باد نسیم سہرا

رونمائی میں تیری نقد و نظر حاضر ہے

تو ذرا بیٹھ تو سہی چہرے سے اُلٹ کر سہرا

صورت غنچہ ، خنداں ہے شگفتہ دولہا

زندگی کی ہے وہ پُر کیف حقیقت سہرا

دولہا دلہن رہیں یا اللہ ہمیشہ مسرور

ہو نوید طرب و عیش و مسرت سهرا

گوش نوشہ میں چپکے سے وہ کیا کہتا ہے

فاش کرتا ہے کوئی راز محبت سہرا

شوق سے لایا ہے سہرے کو سجا کر اجملؔ

واقعہ یہ ہے کہ ہے نذر محبت سہرا

 

جب بھی کہتے ہیں زمانہ میں سخنور سہرا

 

جب بھی کہتے ہیں زمانہ میں سخنور سہرا

لفظ و معنی کا بنا کرتا ہے پیکر سہرا

سہرہ کو بھی شاید نہیں معلوم کہ ہے

حسن آغاز عنایات کا مظہر سہرا

 

کر کے روشن یہ بہر حال خوشی کی شمعیں

کر ہی دیتا ہے زمانہ کو منور سہرا

ختم ہے اس پر خوشی اور مسرت ساری

اُس کی قسمت ہے جسے آجائے میسر سہرا

حسن و خوبی میں ہے یہ حسن طلب کا مظہر

اپنے انداز و ادا میں ہے مظفر سہرا

حاصل عمر ہے ساعت وہ خوشی کی واللہ

بہنیں جب باندھتی ہیں بھائی کے سر پر سہرا

باندھنے آئے ہیں جاوید و شکیل و فاروق

اپنے سالے کے سر ناز پہ خوشتر سہرا

شادماں آج ہیں کیا کیا نہ ثریا افروز

سر پر باندھے ہوئے آیا ہے جو دیور سہرا

خوش جو روبی ورشیدہ میں تو فرزانہ بھی

پڑھ کے شاداں میں بہت بھائی کا اصغر سہرا

شکر واجب ہے خدا کا کہ کرم سے اس کے

وجہ تسکین ہوا شاکرہ مظهر سهرا

جگمگاتے رہیں مہرومہ وانجم جب تک

جلوہ افروز ہو مثل مہ انور سهرا

 

چہرہ ایسا لگتا ہے شاندار نوشہ کا

 

چهرہ ایسا لگتا ہے شاندار نوشہ کا

ہر ستارا لگتا ہے جانثار نوشہ کا

زندگی کے گلشن کے پھول مسکراتے ہیں

زندگی کا موسم ہے سازگار نوشہ کا

دیکھتی ہے جنت کی حور بھی محبت سے

دیکھئے دیوانہ ہے دل ہزار نوشہ کا

سنت شہ دیں کی روشنی ہے چہرے پر

دیکھئے دیوانہ ہے پر بہار نوشہ کا

 

یہ برکتیں ہیں یقینانی کی سنت کی

 

کلام: برہان الدین ربانی مصباحی مبرم

 

ہزاروں آرزوں کا ثمر ۔ ۔ ۔ مبارک ہو

یہ سہرا نوشہ عالی گہر ۔ ۔ ۔ مبارک ہو

تھا انتظار تجھے جس کا ایک مدت سے

امید آج وہ آئی ہے بر ۔ ۔ ۔ مبارک ہو

خوشی میں جھوم رہے حاجی عبدالرشید دیکھو

اور ان کے لب پہ ہے نور نظر ۔ ۔ ۔ مبارک ہو

تمھارے ماموں ہیں طاہر سرور میں گویا

لگے نہ تم کو کسی کی نظر ۔ ۔ ۔ مبارک ہو

ہر ایک سے یہی کہتی ہیں خالہ کبری بھی

ہمارا بھیجا ہے رشک قمر ۔ ۔ ۔ مبارک ہو

بتاوں حال کیا بھائی لعیق احمد کا

ہے ان کا مستی میں قلب و جگر ۔ ۔ ۔ مبارک ہو

خوشی میں چھرے کھلے ہیں لطیف و یوسف کے

یہ کہہ رہے ہیں کہ نوشہ کا سر ۔ ۔ ۔ مبارک ہو

سناوں حال میں کس کس کا کس کا ذکر کروں

نظر تو ڈال ۔ ۔ کہے سارا گھر ۔ ۔ ۔ مبارک ہو

یہ برکتیں ہیں یقیناً نبی کی سنت کی

دعا دیتے سبھی خشک و تر۔ ۔ ۔ مبارک ہو

بلند شان ہے اتنی کہ آج نوشہ کی

بلائیں لیتے ہیں شمس و قمر ۔ ۔ ۔ مبارک ہو

نظارہ آج کا کتنا ہے شاد کن مبرمؔ

کہ خندہ زن ہیں لگے بحر و بر ۔ ۔ ۔ مبارک ہو

 

خلد سے لائی ہیں حوریں بنا کر سہرا

 

کلام :محمد سنجر رضا

 

لله الحمد دکھاتا ہے وہ منظر سہرا

رحمت خالق اکبر ہے سراسر سہرا

خلد سے لائی ہیں حوریں بنا کر سہرا

مشک و عنبر سے بھی خوشبو میں ہے بڑھ کر سہرا

پڑھ کے الحمد حسینوں نے اسے گوندھا ہے

کیوں نہ سب سہروں سے بہتر ہو یہ بہتر سہرا

بلبلیں مست ہو جائیں پھول کھلے چھائی گھٹائیں

سر پہ دولہا کے جو باندھا گیا گا کر سہرا

اوج پر ہے تری قسمت کا ستارا

رحمت حق سے بندھا آج ترے سر سہرا

شمع رو محفل شادی کا اجالا تو ہے

چاند کی طرح سے روشن ہے ترے سر سہرا

 

فضل خالق کا گھٹا بن کے ہے چھایا ہر سو

بارشیں پھولوں کا کرتی ہیں نچھاور سہرا

تجھ کو شاہی ملی بجتی ہے ترے گھر نوبت

تاج شادی کا ترے سر ہے تو رخ پر سہرا

اپنے بیگانے بھی دل سے دعا کرتے ہیں

راس لائے تجھے یہ خالق اکبر سہرا

دولہا دولہن سے ملے شاد ہو دل دونوں کا

زینت عشق بنے حسن کا زیور سهرا

جھوم کر سہرے کی ہر ایک لڑی کہتی ہے

دل سے دل آج ملائے گا یہ دلبر سہرا

کیوں نہ دل شاد خوشی سے ہو تر والد کا

حق نے دکھلایا جو اولاد کے سر پر سہرا

اہل محفل نے سناجب گل مضموں میرا

کہ اٹھے خوب لکھا آپ نے سنجرؔ سہرا

 

سنت مصطفی ہورہی ہے اداسر پہ نوشہ کے سہرا سجایا گیا

 

کلام :تصدق

 

سنت مصطفی ہو رہی ہے اداسر پہ نوشہ کے سہرا سجایا گیا

رحمت حق اجاگر ہوئی چار سو آج ۔ ۔ ۔ کو دولھا بنایا گیا

 

صدقہ شاہ بغداد غوث الوری صدقہ شاہ اجمیر خواجہ پیا

سارے ولیوں کا جب فیض جاری ہوا چاہتوں سے یہ رشتہ رچایا گیا

 

مسکراتی زمین مسکر ا تا زماں سارے احباب کا تھا یہی مدعا

ان کے والد کو تسکین ہے مل گئی جب نوشتہ کا چہرہ دکھایا گیا

 

شادماں ہو رہے ہیں آج حور و ملک گو نجتی بلبلوں کی تصدق چہک

ہر کوئی مسکرانے لگا با خدا عشق کا جب ترانہ سنایا گیا

 

بارش نور ہر سو برسنے لگی خوشبووں سے فضا بھی مہکنے لگی

 دل کے ارمان پورے تصدقؔ ہوئے نغمہ خوشیوں کا ہر سوجو گایا گیا

 

ان کی شادی خانہ آبادی ہو رب مصطفی

 

مدنی سهرا

 

مرحبا عطار کا لخت جگر دولھا بنا

خوشنما سهرا عبید قادری کے سر سجا

ان کی شادی خانہ آبادی ہو رب مصطفی

از پئے غوث الوری بهر امام احمد رضا

ان زوجہ یا خدا کرتی رہے پردہ سدا

ان کو بیوی کو الہی بخش توفیق حیا

تو سدا رکھنا سلامت ان کا جوڑا یا خدا

کوئی بھی جھگڑا نہ ہو آپس میں اے رب العلیٰ

ان کو خوشیاں دو جہاں میں تو عطا کر کبریا

ان پر رنج و غم کی نا چھائے کبھی کالی گھٹا

آفت فیشن سے ہر دم ان کو تو مولی بچا

یا الہی ان کا گھر گہوارہ سنت بنا

میٹھے میٹھے ہوں مدینے کے انھیں منے عطا

واسطہ یا رب مدینے کی مبارک خاک کا

جب تلک بیٹا عبید قادری زندہ رہے

خوب خدمت سنتوں کی یہ سدا کر تا رہے

اس طرح مہکا کرے یہ گھر کا گھر سب یا خدا

پھول جیسا کہ مہکتے ہیں مدینے کے سدا

یا الہی دے سعادت حج کی ان کو بار بار

بار بار ان کو دکھا میٹھے محمد کا دیار

ہو بقیع پاک میں دونوں کو مدفن بھی عطا

سبز گنبد کا تجھے دیتا ہوں مولی واسطہ

یہ میاں بیوی رہیں جنت میں یکجا اے خدا

یا الہی ہے یہی عطارؔ کے دل کی دعا

 

 خوشنما پھولوں کا اس کے سر پہ ہے سہرا سجا

 

مدنی  سہرا

 

آج مولی بخش فضل رب سے ہے دولھا بنا

خوشنما پھولوں کا اس کے سر پہ ہے سہرا سجا

اس کی شادی خانہ آبادی ہو رب مصطفے

از طفیل غوث و خواجہ از پئے احمد رضا

ان کی زوجہ یا خدا کرتی رہے پردہ سدا

از طفیل حضرت عثمان غنی با حیا

تو سدا رکھنا سلامت ان کا جوڑا کردگار

ان کو جھگڑوں سے بچانا از طفیل چار یار

ان کو خوشیاں دو جہاں میں تو عطا کر کبریا

کچھ نہ چھائے ان پہ غم کی رنج کی کالی گھٹا

تو نحوست سے انہیں فیشن کی اے مولیٰ بچا

سنتوں پر یہ عمل کرتے رہیں یا رب سدا

 

 

 

جنت کے پھول سے ہم ، سہرا سجا کے لائے

 

جنت کے پھول سے ہم ، سہرا سجا کے لائے

حوروں ملک بھی دیکھو خوشیوں کی گیت گائے

نوشہ ۔ ۔ ۔ ۔ تیرے چہرے کی چاندنی سے

چھائی ہے کیف و مستی ہر ذرہ جگمگائے

والد جناب ۔ ۔ ۔ خوشیوں میں کہہ رہے ہیں

ہر وقت تو خوشی کے گلشن میں مسکرائے

دولھا کے چچا ۔ ۔ ۔ خوشیوں میں کہہ رہے ہیں

اللہ کرے یہ سہرا دن رات جگمگائے

نوشہ کے بھائی ۔ ۔ ۔ خوشیوں میں کہہ رہے ہیں

اللہ کرے یہ سہرا تا حشر جگمگائے

نوشہ کے مامو ۔ ۔ ۔ خوشیوں میں کہہ رہے ہیں

اللہ کرے یہ سہرا تا حشر جگمگائے

خوشیوں میں جھوم کرکے ۔ ۔ ۔ یہ کہہ رہے ہیں

اللہ کرے یہ سہر ا دن رات جگمگائے

 

ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے باغ جنت سے آیا ہے سہرا

 

آج نوشہ کے چہرے پر دیکھو کتنا دلکش بندھایا ہے سہرا

ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے باغ جنت سے آیا ہے سہرا

ہو نہ ان بن کبھی زندگی میں نیک دلہن سے تیری اسے دولھا

اس لیے قل ہو اللہ پڑھ کر تیرے سر پہ سجایا ہے سہرا

کیوں نہ خوش ہوں سبھی دولھا والے کیوں نہ مسرور ہو ہر باراتی

اپنی رنگیوں کی بدولت ہر نظر میں سمایا ہے سہرا

ہو گئی پوری دل کی تمنا کام آئی دعا باپ ماں کی

مرحباسج کے نوشہ کے سر پر بزم شادی پہ چھایا ہے سہرا

 

خوشیوں میں جھومنے لگا سہرا

 

خوشیوں میں جھومنے لگا سہرا

سر پہ نوشہ کے جب سجا سہرا

مصطفی کی عطا سے ان کو ملا

خوشیوں میں بسا ہوا سہرا

بھائی ۔ ۔ ۔ ۔ آج محفل میں

ہیں مگن دیکھ کر ترا سہرا

بہنوئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھی

خوش ہیں دیکھ کر ترا سہرا

غوث و خواجہ کے فیض اقدس سے

دو دلوں کو ملا دیا سہرا

نرگس و بیلا اور چمیلی و گلاب

مل گیے سب تو بن گیا سہرا

کس نے باندھا ہے سر پہ نوشہ کے

اتنا خوش رنگ و خوش نما سهرا

 

پڑھ رہا ہوں میں درودوں سے سجا کر سہرا

 

لوح محفوظ سے لایا ہوں لکھا کر سہرا

پڑھ رہا ہوں میں درودوں سے سجا کر سہرا

تجھ پہ اللہ کی ہر آن ہو رحمت کی نظر

اے میرے دوست میری جان برادر سهرا

گل گلزار بھی مہکے ہیں سبحان اللہ

جب بندھا سر پہ میری جان جھکا کر سہرا

پھول تو پھول ہے شامل ہے جگر بھی اپنا

دل سے الفاظ کا لایا ہوں بنا کر سہرا

عرش اعظم سے بھی خوشیوں کی صدا آتی ہے

پڑھ رہا ہوں جو محمد کو دیکھا کر سہرا

 

ان کا سہرا ہے نرالا اللہ ہی اللہ

 

دولھا بنا ہے بھولا بھالا اللہ ہی اللہ

ان کا سہرا ہے نرالا اللہ ہی اللہ

پھول سے ان کا سہرا سجایا گیا

آج محفل کو دل سے رچایا گیا

ان کا رتبہ کتنا اعلی اللہ ہی اللہ

والدین خوشی سے مچلنے لگے

سارے گھر والے مل کر یہ کہنے لگے

مالی لایا پھول والا اللہ ہی اللہ

حسن یوسف کا صدقہ دے زوجین کو

یعنی دولھا کے قرار اور چین کو

یہ کہتا ہے متوالا اللہ ہی اللہ

ان کے بھائی خوشی سے مچلنے لگے

اور چاچا خوشی میں یہ گانے لگے

دولھا کتنا پیارا پیارا اللہ ہی اللہ

 

 

ہر ایک لفظ میں جیسے کوئی کمی سی ہے

 

کلام :نعیم ضرار

 

زمین گاتی ہے اک آسمان کا سہرا

زہے نصیب میں لکھتا ہوں خان کا سہرا

ہر ایک لفظ میں جیسے کوئی کمی سی ہے

مقابل ہے میرے کس عالی شان کا سہرا

ریحام خان سی دلہن سے ماہ گہنایا

اور اُس پہ سج گیا مہر زمان کا سہرا

جو حکمرانی کروڑوں دلوں پہ کرتا ہے

چلو سجائیں اسی حکمران کا سہرا

نعیمؔ خوش ہے کہ اہل وطن ہیں باراتی

دعا ہے قوم کو راس آئے خان کا سہرا

 

حوروں کی جوانی نوشہ ہے جنت کا نظارا سہرا ہے

 

چہرے سے شہاب خوشخو کے منسوب جو پیارا سہرا ہے

حوروں کی جوانی نوشہ ہے جنت کا نظارا سہرا ہے

لڑیوں کی لچک بھی جلوہ نشاں پھولوں کی مہک بھی روح فزا

اس قلزم نور و نکہت میں ڈوبا ہوا سارا سہرا ہے

کچھ دیکھ کے لڑیاں چومتے ہیں کچھ لیکے بلائیں جھومتےہیں

گر چاند کا تکڑا نوشہ ہے ہر آنکھ کا تارا سہرا ہے

اس بزم میں ہیں ماں باپ بھی خوش احباب بھی خوش ہم آپ بھی خوش

اب عهد بهار گلشن کا پیارا ہے کہ پیارا سہرا ہے

نوشاہ بھی حیدر قدرت کی صنعت کا نمونہ ایک ہی ہے

سہرا بھی عروس فطرت کے گھونگھٹ کا نظارا سہرا ہے

 

پہونچا ہے اوج پر اب نوشاہ کا ستارا

 

دلکش سما ہے کتنا ، کتنا حسیں نظارا

پہونچا ہے اوج پر اب نوشہ کا ستارا

بزم حسیں میں آئے ۔ ۔ ۔ جو دولہا بن کے

رحمت خدا کی برسی محفل میں موتی بن کے

حوریں مچل اٹھیں کہ کس نے انھیں سنوارا

ہے دھوم ہر سو ۔ ۔ ۔ بجتے ہیں شادیانے

خوشیوں سے گا رہے ہیں ۔ ۔ ۔ بھی اب ترانے

ہے ماں کو مل گیا اب جینے کا اک سہارا

ہو مست کیوں نہ ۔ ۔ ۔ بھائی کو دیکھ کر آج

سر پے بندھا ہوا ہے پھولوں کا جو حسیں تاج

رخسار نوشہ دیکھو لگتا ہے کتنا پیارا

خوشیوں سے جھوم اٹھی گلشن کی ڈالی ڈالی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی بھی تقدیر ہے نرالی

قربان ہو رہا ہے ان پر حسیں نظارا

مسرور شادماں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ ۔

احسان ہوا خدا کا تجھ پر بھی ۔ ۔ ۔ ۔

رنج والم ہوا سب نوشہ کا پارا پارا

 

۔۔۔ نے بھی گھڑیاں خوشی کی پائی

۔۔ ۔۔ نے بھی ہنس کر نوشہ کو دعا دی

۔۔۔ نے مسکرا کر جب کر دیا اشارہ

سہرے کا پھول ۔ ۔ ۔ تا حشر مسکرائے

ہر شخص دے رہا ہے پیہم یہی دعائیں

یہ انداز شاعرانہ لگتا ہے کتنا پیارا

سنت شاہ مدینہ کا ہے مظہر سہرا

 

کلام :محمد طفیل احمد مصباحی، بانکا

 

الله الحمد بندھا آج ترے سر سہرا

مرحبا چاند سے زیادہ ہے منور سہرا

کس قدر دھوم سے ہونے لگی تکمیل وفا

سنت شاہ مدینہ کا ہے مظہر سہرا

دید کے واسطے آئےہیں ملائک بھی یہاں

حوریں فردوس سے لائی ہے بنا کر سہرا

باغ ہستی میں کھلا دیکھئے ارماں کا گلاب

دولها جامی ہو مبارک تجھے سر پر سہرا

تیری خوشبو سے معطر ہے مشام جاں بھی

بوئے گل ہے تو یا پھر مشک یا عنبر سہرا

رخ نوشہ پہ سجا کر تجھے عزت بخشی

شکر مولی کا سدا دل سے ادا کر سہرا

دادا ادر یس کا فیضان نظر کیا کہنا

آج پوتا بنا قسمت کا سکندر سہرا

اپنے شفقت بھرے ہاتھوں سے بلائیں لے کر

دادی کہتی ہیں بہت خوب ہے ، بہتر سہرا

والد ووالدہ کی ہے یہ دعاوں کا اثر

چمکا ریحان کی قسمت کا جو اختر سہرا

رخ روشن کی چمک دیکھیے ماشاء اللہ

اسے جواں بخت مبارک تجھے سر پر سہرا

اس کے ہر تار سے نغمات خوشی کے پھوٹیں

طائر خوش نوا پھر گائے نہ کیوں کر سہرا

ہر طرف عیش و طرب کی ہے گھٹا چھائی ہوئی

تیرے جلووں سے ضیا بار ہے گھر گھر سہرا

آج پھولے نہ سماتی ہیں خوشی سے بہنیں

پھول کرتی ہیں یہ بھائی پہ نچھاور سہرا

رحمت و نعمت و فرحت کی مسرت دیکھو

گنگناتی ہوئی پڑھتی ہیں مچل کر سہرا

بھائی منہاج و مجاہد بھی ہیں شاداں بے حد

آج ان کے لیے ہے خود سے بھی بڑھ کر سہرا

لے کے سوغات دعا پھوپھا، چچا حاضر ہیں

ہے دعا ان کی سلامت رہے سر پر سہرا

بولے محبوب بھی ، خوشنود بھی، جاوید بھی آج

یونہی چمکا کرے ہر دم دترا خاور سہرا

بزم شادی میں ہیں موجود رضا اختر بھی

یہ بھی پڑھتے ہیں یہاں خوب اچھل کر سہرا

زینت بزم چچا اسلم والیاس بھی ہیں

دیکھنے آئے ہیں منہاج بھی گز بھر سہرا

شاداں معراج چچا اور سر فراز بھی ہیں

دیکھتے ہیں یہ نگاہوں کو اٹھا کر سہرا

دیکھو احباب کے ہونٹوں پہ قسم کا جمال

نور ونکہت سے ہے معمور و معطر سہرا

بولے دلکش بھری مجلس میں اسے بھائی نوشہ

جاذب قلب و نظر اور ہے سندر سہرا

 

عرفاں اور پیارے حسن اختر واسجد بولے

بھیا جامی ہو مبارک ترے سر پر سہرا

جشن شادی ہو مبارک تمھیں جامی فرحا

چمکے پیشانی پہ الفت کا یہ گوہر سہرا

خوش ہے احمدؔ بھی بہت جامی کا سہرا لکھ کر

کرتا خوشیوں کا ہے تقسیم یہ لنگر سہرا

 

رسول پاک کی سنت ، نگاہوں کی حیا سہرا

 

کلام:طفیل احمد مصباحی ، بانکا

 

خدائے لم یزل کا خاص انعام و عطا سہرا

رسول پاک کی سنت ، نگاہوں کی حیا سہرا

بڑا ہی جاں فزا سہرا، بڑا ہی دلر با سہرا

خوشی کی ابتدا سہرا، خوشی کی انتہا سہرا

کتاب زندگی کا ہے باب خوشنما سہرا

مسرت شادمانی کا گل رنگیں ادا سہرا

طفیل حافظ ملت نکاح کا وقت آپہنچا

مبارک ہو فضائل آج تیرے سر سجا سہرا

امین دین وملت کا ہوا فیضان کچھ ایسا

یکا یک سج گئی بارات سر پہ سج گیا سہرا

دعائیں رنگ لائی ہیں پدر ، مادر ، برادر کی

که فرزند حسیں کے آج ماتھے پر بندھا سہرا

 

کھلا ہے گلشن الفت میں ارماں کا کنول دیکھو

بهار زندگی کی ہے یقیناً ابتدا سہرا

جہاں رنگ و بو میں ہے اسے رتبہ بڑا حاصل

سراپا عشق والفت، پیکر مهر و وفا سهرا

مشام جاں معطر کیوں نہ ہو پیر و جواں سب کا

گل فردوس کا تجھہ میں عرق جو ہے ملا سہرا

ادا و ناز، حسن و دلکشی سب بھول جائے وہ

نگاه شوق سے گر دیکھ لے جو مہ لقا سہرا

ترے سے جلووں کو جھک جھک کر سلامی دیتے ہیں انجم

سبھی مشتاق ہیں تیرے نقاب رخ ہٹا سہرا

بہار حسن ہے قربان نوشا کی ملاحت پر

زیارت تو بھی کرلے آج اسے گلگوں قبا سہرا

سبھی احباب، بہنیں اور برادر شاد ہیں بے حد

کہ ہر اک کی نگہ کا آج مرکز ہے بنا سہرا

برائے مہماں شمشاد پلکوں کو بچھاتے ہیں

ہے آصف اور شاہد کی نگاہوں کی ضیا سہرا

جمیل اختر ، علیم ، احسان کہتے ہیں مسرت سے

مبارک ہو فضائل آج تیرے سر سجا سہرا

چچا ، والد ، کلمیو قمر الدیں ، بھائی اماں بولے

بڑا ہی جاذب قلب و نظر نوشا تیرا سهرا

بہت مسرور ہیں عابد و شاہد آج محفل میں

جسیم واکمل و مظہر کو بھی ہے بھا گیا سہرا

مبارک باد کا تمغہ لیے احسان حاضر ہے

نظام الدین کو بھی ہے پسند آیا بڑا سہرا

 

شکیل با صفا دانش عمر محفل میں یہ بولے

مبارک ہو تمھیں بھائی فضائل پھول کا سہرا

فضائل اورعنم پروین کو شادی مبارک ہو

ہے احمدؔ کی دعا یوں ہی رہے ہر دم ہرا سہرا

 

خدائے پاک کی رحمت ہمیشہ سہرے کے پھولوں میں

 

کلام :معراج

 

خدائے پاک کی رحمت ہمیشہ سہرے کے پھولوں میں

نگاه مصطفی صلی علی سہرے کے پھولوں میں

ابو بكر و عمر عثمان وحیدر کی عنایت سے

چلی فردوس سے ٹھنڈی ہوا سہرے کے پھولوں میں

ہوئے ارمان پورے والد ۔ ۔ ۔ ۔ صاحب کے

جو دولھا لاڈلہ - - ۔ ۔ ۔ بنا سہرے کے پھولوں میں

خدا کرنا کرم چچا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پر

یہ بھی کر رہے ہیں دعا سہرے کے پھولوں میں

بہن مسرور ہیں یہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھی

سبھی بہنوں کا ہے بھیا سجا سہرے کے پھولوں میں

بھائی مسرور ہیں یہ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھی

سبھی بھائی کا ہے بھیا سجا سہرے کے پھولوں میں

کہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ سارے بہنوئی

ہمارے سالے کا چہرہ کھلا سہرے کے پھولوں میں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ ۔۔ پھوپھا کی

ہے دل کا چین آنکھوں کی ضیا سہرے کے پھولوں میں

یہی کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ ۔ سارے باراتی سے

یہ ہے نور نظر بیٹھا ہوا سہرے کے پھولوں میں

جناب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کو ذرا دیکھو

جمائے ہیں نظر سہرے پر یا سہرے کے پھولوں میں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔مامو اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماما کا

بڑا ہی پیارا ہے بھانجا سہرے کے پھولوں میں

......۔ و ۔ ۔ ۔ ۔ ۔و ۔ ۔ ۔ ۔ بھانجا اور بھانجی

کہے مامو ہمیں اچھا لگا سہرے کے پھولوں میں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھی

انھیں بھی اپنا چاچا بھا گیا سہرے کے پھولوں میں

سبھی احباب سے ۔ ۔ ۔ ۔ پھوپھا آج کہتے ہیں

ہمیں اچھا لگا نوشہ ہمارا سہرے کے پھولوں میں

سبھی مخمور ہیں معراجؔ آخر یہ ماجرہ کیا ہے ؟

کوئی جادو ہے یا کوئی نشہ سہرے کے پھولوں میں

 

الہی بھیج دے نوری کرن سہرے کے پھولوں میں

 

الہی بھیج دے نوری کرن سہرے کے پھولوں میں

مدینے کا نظر آئے چمن سہرے کے پھولوں میں

دعائیں دے رہے والد ۔ ۔ ۔ ۔ اب اپنے بیٹے کو

میرے شہزادے کا مہکے بدن سہرے کے پھولوں میں

چچا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہتے ہیں

رہے ہر وقت خوش میراللن سہرے کے پھولوں میں

مبارک بادیاں دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ صاحب بھی

سدا ہنستے رہے دولھا ، دلہن سہرے کے پھولوں میں

خوشی میں جھوم کر کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہ نوشتہ آج ہیں کتنا مگن سہرے کے پھولوں میں

دعا دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صاحب یہ

الٰہی بھیج دے نوری کرن سہرے کے پھولوں میں

یہی خواہش ہے ۔ ۔ ۔ ۔ کی ۔ ۔ ۔ ۔ کی ۔ ۔ ۔ ۔ کی

مدینے کا نظر آئے چمن سہرے کے پھولوں میں

 

کیا خوب حسیں رنگ گلزار ہے سہرے میں

 

کلام :رفعت برکاتی

 

اللہ کی رحمت ہے انوار ہے سہرے میں

سرکار کی سنت کا اظہار ہے سہرے میں

نوشہ ہے بنے جاوید اقرار ہے سہرے میں

کہہ دو یہ ہواوں سے سالار ہے سہرے میں

کیا خوب حسیں رنگ گلزار ہے سہرے میں

ماں باپ کے دل کو بھی ہے آج ملا تسکین

بیٹا ہے بنا نوشہ خوش آج ہیں ظفر الدین

کس طرح مچلتے ہیں پرویز مسرت میں

ہیں ڈوبے ہوئے حافظ تبریز مسرت میں

ان سب کی محبت ہے اور پیار ہے سہرے میں

نوشاد علی دل سے دیتے ہیں دعا بے حد

یہ شہنواز عالم خوش ہیں یہ علی احمد

اس بزم محبت میں مسرور ہیں یونس خاں

اک سمت جمیل احمد قمرل بھی بڑے شاداں

لگتا ہے خدائی کا شہ کا رہے سہرے میں

احباب مسرت سے پھولے نہ سمائے کیوں

خوشیوں کے ترانے پھر بارات نہ گائے کیوں

سہرے کے گلوں سے اب محفل بھی مہک جائے

گلشن میں محبت کے بلبل بھی چہک جائے

واللہ یہ سامان دیدار ہے سہرے میں

تمثیل نہیں کوئی اس بزم مثالی کی

دل سے ہے دعا رفعتؔ شمشاد کمالی کی

نوشہ کے آنگن میں خوشیوں کا بسیرا ہو

پر کیف فضاوں میں پر نور سویرا ہو

محفل کی دعاوں کا اظہار ہے سہرے میں

 

مبارک مرحبا شادی سلامت خوشنما سہرا

 

مبارک مرحبا شادی سلامت خوشنما سهرا

سجا صدام کے سر جنت کا دلر با سہرا

خدا کے فضل و رحمت سے خوشی کا مل گیا سہرا

محمد مصطفی کا صدقہ ہے دولھا تیر اسہرا

ہمارے غوث اعظم کی ہے روحانی دعا سہرا

معین الدین خواجہ کی نگاہوں کا سلہ سہرا

تمھارے دادا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی دعا تم کو

پھلے پھولے میاں بیوی رہے جنت نما سہرا

کہاں پھولے سماتے ہیں تیرے نانا ۔ ۔ ۔ ۔ صاحب

کہ ان کے لاڈلے نواسے نے پہنا لاڈ کا سہرا

تمہاری امی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی تو خوشیوں کا ٹھکانہ کیا

که شهزاده بنا دولها خوشی کا سج گیا سهرا

یہ ۔۔۔۔ کہے سب کو مبارک ہو مبارک ہو

تیرے ۔ ۔ ۔ ۔ کی بدولت کھل گیا سہرا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لب پر تو مسرت کا ترانہ ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نے بھی ہو کے خوش سنا سہرا

بشاشت سے کھلا چہرہ تیرے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جھوم اٹھا سنا جب سے میرا سہرا

خوشی کی گیت لب پر ہیں تیرے ۔۔۔۔ کے

جناب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صاحب لائے پھول کا سہرا

قرار باقی نہ رکھی بھائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نے

سجایا سارا گھر خوشیاں ہے شادی کے نیا سہرا

۔ ۔ ۔ ۔ کا خوشیوں سے پھولوں سا کھلا چہرہ

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صاحب کے دل کو لگا سہرا

 

فضل حق عشق نبی حب علی سہرے میںہے

 

فضل حق عشق نبی حب علی سہرے میں ہے

چھائی رحمت کی گھٹا بادل نما سہرے میں ہے

آپ کو مل جائے گا سارے سوالوں کا جواب

پوچھیے حسان بن ثابت سے کیا سہرے میں ہے

حضرت حسنین کے نانا کی سنت پر چلو

حق تعالیٰ کی بڑی نعمت ملی سہرے میں ہے

حور و غلما کی زباں پر آج ہے صلی علیٰ

سنت سرکار کی بھی روشنی سہرے میں ہے

ہے مقدر کا سکندر دوستوں نوشہ ۔۔۔۔۔

جس خوشی کی آرزو تھی وہ خوشی سہرے میں ہے

دیکھ کر بیٹے کا سہرا جھوم اٹھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ان کے ہی فیض دعا سے ہر خوشی سہرے میں ہے

دیکھ کر بھائی کا سہرا کہہ اٹھے ۔۔۔۔۔۔

چاند و سورج کی ضیا اور چاندنی سہرے میں ہے

 

خدا کے فضل سے ہے بارش انوار سہرے میں

 

کلام :قمر بنارسی

 

خدا کے فضل سے ہے بارش انوار سہرے میں

ہےپوشیدہ علی و فاطمہ کا پیار سہرے میں

جمال حضرت یوسف زلیخا کی محبت سے

پلٹ کر آگیا ہے مصر کا بازار سہرے میں

ثریا پر ہے اب جناب ۔ ۔ ۔ ۔ کی قسمت

ادا جو ہو گئی ہے سنت سر کار سہرے میں

جناب۔ ۔ ۔ ۔ کے دل کی حسرتیں اب ہو گئیں پوری

ہے بیٹا دل کے دہلی کا قطب مینار سہرے میں

خدا کی رحمتیں ہیں بالیقیں ۔ ۔ ۔ ۔ پر

یقیناً فاطمہ زہرا کا ہے کردار سہرے میں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہیں مست اور بھائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

محبت کا یہ دونوں کرتے ہیں اظہار سہرے میں

جناب حضرت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

محبت کا لوٹاتے ہیں گو ہر کردار سہرے میں

 

ہیں جتنے دوست اور احباب سب خوشیاں مناتے ہیں

وفا کا دل سے کرتے ہیں حسیں اقرار سہرے میں

يقيناً۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ۔ ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ ۔

ہے ان کا عشق دیکھو کس قدر دمدار سہرے میں

یہاں ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ ۔ خوشیوں میں نہاتے ہیں

ہوئے ہیں سب کے سپنے دوستوں ساکار سہرے میں

دعا ہے میری دل سے دولھا دلہن خوش رہیں ہر د م

قمرؔ کی التجا ہے یا خدا ہر بار سہرے میں

 

سرکار کی سنت کا اظہار ہے سہرے میں

 

کلام :رفعت بر کاتی

 

اللہ کی رحمت ہے انوار ہے سہرے میں

سر کار کی سنت کا اظہار ہے سہرے میں

مولانا مدثر کا اقرار ہے سہرے میں

کہہ دو یہ ہواوں سے سالار ہے سہرے میں

کیا خوب حسیں رنگ گلزار ہے سہرے میں

شادی ہے یہ سنت ہے یہ حکم شریعت ہے

والد جو ہیں نوشہ کے وہ پیر طریقت ہیں

مولانا مزمل تو شاداں ہیں بشر بھی

ہیں آج مسرت میں یہ بھائی مفسر بھی

ان سب کی محبت ہے اور پیار ہے سہرے میں

 

خورشید و مبیں ، اصغر ، اخلاق و زین الدیں

بہنوئی ہیں نوشہ کے سب خوش ہیں یہ محبوبیں

ماموں کی نگاہ و دل مشغول مسرت ہیں

خالد ہیں یہ شاہد " ہیں فیروز و لیاقت ہیں

لگتا ہے خدائی کا شہ کار ہے سہرے میں

سبطین مسرت سے پھولے نہ سمائے کیوں

خوشیوں کے ترانے یہ حسنین نہ گائے کیوں

ارمان و فیضان و نعمان بھی شاداں ہیں

کونین و عبد المصطفی و فرقاں ہیں

واللہ یہ سامانِ دیدار ہے سہرے میں

تمثیل نہیں کوئی اس بزم مثالی کی

دل سے ہے دعا رفعتؔ شمشاد کمالی کی

نوشہ کے آنگن میں خوشیوں کا بسیرا ہو

پر کیف فضاوں میں پر نور سویرا ہو

محفل کی دعاوں کا اظہار ہے سہرے میں